ہمارا ’کل‘ پی آئی اے اور ’آج‘ پی اے ایف!

تحریر: محمد فیصل شہزاد

پہلے ایک حسین اتفاق ملاحظہ کیجیے گا کہ ۱۰ مئی (۱۹۵۵ء) ہی کو پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کا قیام عمل میں آیا تھا اور ہماری نئی برگر نسل جو آج پی آئی اے کے جہازوں اور سروسز کو حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے، یہ بچے نہیں جانتے کہ ساٹھ ، ستر کی دہائیوں میں پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائن (پی آئی اے) دنیا کی نمبر ایک اور نہایت معتبر و مثالی فضائی کمپنی کے طور پر جانی جاتی تھی۔ ایسی مثالی کہ شاید آج کے بچوں کے لیے یقین کرنا مشکل ہوجائے کہ اس دور میں پی آئی اے نے اپنی اعلیٰ تربیتی صلاحیتوں کی بدولت دنیا کے کم از کم ۴۴ ممالک کی فضائی کمپنیوں اور ایجنسیوں کو تربیت فراہم کی تھی، جن میں ایشیا اور افریقہ ہی نہیں، یورپ تک کے ممالک شامل تھے!!!
جی ہاں! یہ وہ دور تھا جب فضا میں حقیقتاً پاکستان کا راج تھا۔ ایک طرف ہمارے فضائیہ کے ہیرو ایم ایم عالم فضائی جنگ میں عالمی ریکارڈ بنا رہے تھے تو دوسری طرف ہمارا نیشنل سول فضائی ادارہ (PIA) غیر ملکی پائلٹس، انجینئرز اور دیگر فضائی عملے کو نہ صرف تربیت دے رہا تھا بلکہ مختلف ممالک کی قومی ایئرلائنز کے قیام اور ترقی میں بھی کلیدی کردار ادا کر رہا تھا۔
چوالیس تو نہیں، دیگ کے بس چند دانے ملاحظہ کیجیے گا:
سنہ ۱۹۶۰ء میں جب جرمنی کی ”لفتھانزا“ اپنی پروازوں کی ازسرِنو تنظیم کر رہی تھی، تب پی آئی اے نے اس کے پائلٹس اور کیبن کریو کی تربیت میں بھرپور تعاون کیا۔ پی آئی اے کے ماہرین نے ان کی فلائٹ آپریشن ٹیم کو جدید طرز پر تربیت دی۔ پی آئی اے کی تربیت یافتہ ٹیموں نے ”ایئر فرانس“ کو بعض تکنیکی اور سیفٹی اسٹینڈرڈز کے معاملے میں مشاورت اور محدود تربیتی معاونت فراہم کی، بالخصوص فلائٹ انسپیکشن اور کیبن سروسز کے شعبے میں۔اٹلی کی سول ایوی ایشن کے تحت کام کرنے والے بعض فضائی اداروں نے بھی ۷۰ کی دہائی میں پاکستان کے ایوی ایشن انسٹی ٹیوٹ سے تربیت حاصل کی۔ یونان کی ”ایجیئن ایئر لائن“ کے ابتدائی دنوں میں کچھ یونانی پائلٹس نے کراچی میں قائم پی آئی اے کے تربیتی مرکز میں کورسز کیے۔ اسی طرح ۱۹۶۸ء میں ابوظہبی اور متحدہ عرب امارات کی فضائیہ کے پچاس فیصد سے زائد پائلٹس پاکستانی تھے۔ ۱۹۷۰ء کی دہائی میں ایئر مالٹا کے قیام میں پی آئی اے نے اہم کردار ادا کیا۔ نہ صرف انتظامی ٹیم فراہم کی بلکہ ابتدائی پائلٹس اور انجینئرز کو بھی تربیت دی۔ ۱۹۷۸ء میں صومالی ایئرلائن کو بھی پی آئی اے نے مدد فراہم کی۔
لیکن پھر کیا ہوا…؟
ایک شاندار کہانی کا افسوسناک انجام! خود ہمارے ہی چند سیاسی شعبدہ بازوں کے ہاتھوں اس عظمت کا زوال شروع ہوا۔ پی آئی اے جو ایک زمانے میں دنیا کی صفِ اوّل کی فضائی کمپنی شمار ہوتی تھی، اپنے ہی تربیت یافتہ شاگردوں سے پیچھے رہ گئی، اور آج حال یہ ہے کہ وہ شاہین جس نے دوسروں کو پرواز کا سلیقہ سکھایا تھا، خود زمین پر بےوزن پڑا اپنے ہی بال وپر نوچ کھا رہا ہے۔ پی آئی اے کا شمار اب بین الاقوامی فضائی منظرنامے میں بمشکل ہی کسی پچھلی صف میں ہوتا ہے۔ لیکن خیر۱۰ مئی کو جنم لینے والی پی آئی اے زوال پذیر ہوئی تو آج اللہ رب العزت نے ایک اور ۱۰ مئی دکھا دیا!
پچھلے چار پانچ دنوں میں ہماری قوم کی فضائی قوت کا ایک اور روشن چہرہ پاک فضائیہ (PAF) کی صورت میں ابھرا ہے، اس نے دنیا بھر کو مبہوت کر دیا ہے۔ یہ وہ معیار اور ایسی دھاک ہے کہ اب تو ہمیں لگتا ہے کہ جس طرح ایک زمانے میں بغداد، بخارا اور قرطبہ جیسے مسلم علمی مراکز دنیا بھر کے طلبہ کا خواب تھے، سائنس و فنون سیکھنے کے لیے وہ ان شہروں میں کھنچے چلے آتے تھے، اسی طرح آج پاکستان کی عسکری برتری، بالخصوص فضائی تربیت کے میدان میں، امریکہ اور یورپ کے نوجوانوں تک کو بھی تربیت کے لیے یہاں آنے پر مجبور کردے گی۔ بس خدا کرے کہ یہ عسکری فتح، جو ہمیں میدانِ جنگ میں نصیب ہوئی ہے، ہم خاکم بدہن مذاکرات کی میز پر نہ ہار بیٹھیں۔
کل کی پریس کانفرنس دیکھنے کے بعد یہ خیال اور بھی پختہ ہوگیا کہ سفارتی محاذ پر خواجہ جیسے لوگ نہیں، بلکہ وہی افراد آگے آئیں جو معاملہ فہمی، حکمت اور بین الاقوامی سیاست کی نزاکتوں سے آشنا ہوں۔ سیاسی چہرہ چونکہ رکھنا ہے تو اسپوکس پرسن بلاول بھٹو کو بنا لیجیے، پسِ پشت کل والی آئی ایس پی آر پریس کانفرنس والی ٹیم معاونت کرلے۔ بندہ ناچیز کی رائے میں اس وقت پاکستان کو سب سے زیادہ ضرورت اپنے سفارت کاروں پر کام کرنے کی ہے، کیونکہ کسی بھی میدان میں نصف جنگ سفارتی محاذ پر ہاری یا جیتی جاتی ہے، سو اس محاذ پر شخصیات کا انتخاب سیاسی بندوبست پر نہیں، عقل، قابلیت اور تدبر سے ہونا چاہیے۔
آج ہم تاریخ کے ایک نادر موقع پر کھڑے ہیں۔ الحمدللہ ہمارے چہرے فتح کے نور سے جگمگا رہے ہیں۔ اگر ہم نے اس لمحے کو قومی اتحاد کی بنیاد بنا کر دانش مندی سے آگے بڑھایا تو آنے والے وقتوں میں ہم دنیا کو صرف چاول، آم اور قالین نہیں بلکہ عسکری بصیرت، دفاعی ٹیکنالوجی اور جنگی حکمتِ عملی ”برآمد“ کرتے ہوں گے ان شاءاللہ تعالیٰ۔ ہم نے قرآن کریم کی ہدایت کی روشنی میں سب سے زیادہ پیسہ ”گھوڑے“ تیار کرنے ہی میں تو لگایا ہے تو کیوں نہ اپنی گھڑسواری و نشانہ بازی بیچ کر ہی اپنی معیشت سدھار لیں!