رپورٹ: ابوصوفیہ چترالی
لعنت الثمانین (آٹھویں دہائی کی نحوست) یہودیوں کے اذہان میں رچا بسا ایک نظریہ ہے۔ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر یقین رکھنے پر مجبور ہیں، کیونکہ ان کی تاریخ اسے تسلیم کرنے پر انہیں مجبور کرتی ہے۔ حالیہ غزہ جنگ کے بعد لعنت الثمانین کے نظریئے نے اپنی جڑیں مضبوط گہری کرلی ہیں۔
صہیونی ریاست میں بڑی تیزی سے یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ اسرائیل کو آٹھویں دہائی کی نحوست نے گھیر لیا ہے اور صہیونی ریاست عنقریب اپنے زوال سے دوچار ہونے جا رہی ہے۔ غزہ اور لبنان جنگ کے دوران ہونے والے حملوں، اندرونی سیاسی اختلافات اور حالیہ تباہ کن آگ نے اس بحث کو مزید ہوا دے دی ہے۔ واضح رہے کہ تاریخ میں یہودیوں کی کسی ریاست نے 80 برس پورے نہیں کئے۔ آٹھ دہائیاں مکمل کرنے سے قبل ہی ہر یہودی ریاست کو فنا کے گھاٹ اترنا پڑا ہے، تاہم تاریخی طور پر صرف دو حکومتیں اس سے مستثنیٰ ہیں۔ ایک حضرت داو¿د علیہ السلام کی حکومت اور دوسری حشمو نائیم کی حکومت۔ جو اَسی برس کو کراس کر گئی تھیں۔ شہید احمد یاسینؒ نے بھی یہی پیش گوئی کی تھی جبکہ متعدد یہودی ماہرین بھی اسی خدشے کا اظہار کررہے ہیں اور اس وقت صورتحال کو سامنے رکھ کر عبرانی میڈیا بھی اسی خدشے کا اظہار کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود اولمرٹ نے بھی ملکی اخبارات میں لکھے اپنے ایک مشہور کالم میں اس خدشے کا اظہار کیا ہے۔
اِس وقت غزہ جنگ، جنگی قیدیوں کی رہائی، ملکی معاشی مسائل اور دیگر کئی وجوہات کی بنا پر اسرائیلی معاشرہ تقسیم در تقسیم کا شکار ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ سابق اسرائیلی وزیر اعظم ایہود باراک نے نیتن یاہو کے خلاف سول نافرمانی کی اپیل کرتے ہوئے قیدیوں کو ہر صورت رہائی کو ضروری قرار دیا ہے۔ خواہ اس کے بدلے میں جنگ بند کیوں نہ کروانی پڑے۔ اسرائیلی اخبار ہارٹز نے یکم مئی 2025ءکو شائع ہونے والی اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ اسرائیل اپنی 77ویں یومِ تاسیس (جسے وہ یومِ آزادی کہتا ہے) مناتے ہوئے اندرونی طور پر بکھر رہا ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ اس بار کی تقریبات پر ایک گہرا سایہ چھایا ہوا ہے، کیونکہ حماس کی قید میں اب بھی کئی اسرائیلی یرغمالی موجود ہیں۔ اخبار کے افتتاحیہ میں کہا گیا ہے کہ یہ دوسرا مسلسل سال ہے جب اسرائیل یومِ آزادی کے موقع پر غزہ کے خلاف جنگ میں مصروف ہے۔ اس وقت بھی 59 اسرائیلی قیدی حماس کے پاس ہیں، جن میں سے 21 کے زندہ ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اخبار کے مطابق یہ ایک کڑوی حقیقت ہے کہ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کی قیادت میں موجود حکومتی اتحاد کے لیے اقتدار میں رہنا یرغمالیوں کی زندگیوں سے زیادہ اہم ہو چکا ہے۔
ہارٹز لکھتا ہے کہ حکومت کی جانب سے اپنی ناکامیوں کی قیمت ادا نہ کرنا اور ان قیدیوں کو واپس لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ کرنا، حکومتی اتحاد خصوصاً وزیر اعظم کے لیے ایک کلنک کا ٹیکا (عار کا دھبا) ہے۔ مزید کہا گیا کہ ان قیدیوں کو نظرانداز کرنا نہ صرف یومِ تاسیس کی تقریبات پر اثر ڈال رہا ہے بلکہ اسرائیلی ریاست پر عوام کے اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ ایک ایسی ریاست جو خود کو یہودیوں کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ قرار دیتی ہے مگر وہ انہیں بچانے میں ناکام ہے۔ آخر میں اخبار کہتا ہے کہ اسرائیلی عوام راہ بھٹک اور منزل کھو چکے ہیں اور اس کا واضح اظہار غزہ پر مسلسل جاری اس جنگ سے ہوتا ہے، جو اب عملی طور پر پورے غزہ کے عوام کو نشانہ بنا رہی ہے۔اخبار ہارٹز نے اپنی یکم مئی 2025ءکی اشاعت میں اسرائیل کے موجودہ سیاسی، عسکری اور سماجی حالات پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اب ایک ایسی ریاست بن چکی ہے جو جنگ اور جنگی جرائم، اور لڑاکوں و عام شہریوں کے درمیان فرق کرنا بھول چکی ہے۔ اخبار کے مطابق جب کوئی ریاست اپنی اخلاقی و انسانی سمت نمایاں کرنے والی قطب نما کھو دیتی ہے تو اس کے لیے اندرونی خطرات بیرونی خطرات سے کسی صورت کم نہیں ہوتے۔
سیاسی بحران اور ادارہ جاتی ٹکراو
ہارٹز نے وزیر اعظم نیتن یاہو پر الزامات لگاتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مسلسل ریاستی اداروں پر حملے کر رہے ہیں۔ انہوں نے اٹارنی جنرل غالی بہاراو م ارا کے خلاف نفرت انگیزی کی، اسحاق عموت کو سپریم کورٹ کے سربراہ کے طور پر تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ سابق آرمی چیف ہرتسی ہالفی کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا اور اب شاباک (اسرائیلی خفیہ ادارے) کے سربراہ رونن بار کو برطرف کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
قیادت کی ناکامی اور بین الاقوامی تنہائی
اخبار نے اسرائیلی قیادت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ اُن کے پاس نہ کوئی وژن ہے، نہ کوئی امید افزا مستقبل کا منصوبہ۔ ان کی پالیسیوں نے نہ صرف اسرائیل کو دنیا میں تنہا کر دیا ہے بلکہ یہودی قوم کی عالمی ساکھ کو بھی نقصان پہنچایا ہے۔ اخبار نے لکھا کہ اسرائیل اندر سے بکھر رہا ہے۔ حریدی (انتہاپسند مذہبی یہودیوں) کا طبقہ لازمی فوجی سروس سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے اور اظہارِ رائے کی آزادی کو دبایا جا رہا ہے۔
سماجی جمود اور میڈیا کا کردار
ہارٹز کے مطابق پارلیمنٹ کے ارکان، وزرا، فنکار، صحافی سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ نفرت انگیز اور نسل پرستانہ بیانات پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آ رہا۔
سیکورٹی اداروں کی سیاست بازی
اخبار نے کہا کہ پولیس کو وزیرِ قومی سلامتی ایتمار بن گویر کے انتہا پسند نظریات کے مطابق دوبارہ منظم کیا جا رہا ہے، جبکہ حکومت مخالف احتجاجی تحریک کو ریاستی اداروں کی جانب سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ہارٹز کا اختتامی جملہ یہی ہے: اسرائیل اندر سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکا ہے اور یہ صرف جنگ کا نتیجہ نہیں بلکہ قیادت کی اخلاقی، سیاسی اور سماجی ناکامیوں کا مجموعہ ہے۔دوسری جانب اسرائیلی مصنفہ اورت یائل نے اخبارزمن اسرائیل میں شائع شدہ اپنے ایک مضمون میں اسرائیل کے موجودہ سیاسی و نظریاتی رخ پر سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ اسرائیل ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ یائل کے مطابق اسرائیل آج ایک نہایت حساس موڑ پر کھڑا ہے جہاں سے اس کے مستقبل کا رخ طے ہو سکتا ہے۔ اگر ملک میں جمہوری نظام کا انہدام نہ روکا گیا اور آئینی توازن بحال نہ کیا گیا تو اسرائیل ایک انتہا پسند مذہبی قومی ریاست میں بدل سکتا ہے جس کا انجام فنا کے سوا کچھ نہیں ہے۔ مصنفہ کا کہنا ہے کہ وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو بظاہر کمزور نظر آنے کے باوجود اب بھی مکمل طور پر ریاست کے تمام اداروں پر اپنی گرفت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ان کی طاقت کا سرچشمہ، ان کی طویل سیاسی مہارت اور ریاستی مشینری پر کنٹرول ہے۔
یائل ایک کلیدی سوال اٹھاتی ہیں کہ نیتن یاہو کے جانے کے بعد کیا ہوگا؟ خواہ وہ کنارہ کشی قدرتی اسباب سے ہو یا عوامی،قانونی دباو کی وجہ سے، ان کا خدشہ یہ ہے کہ اگر عوامی بے حسی کا یہی عالم رہا اور مزاحمت نہ کی گئی تو نیتن یاہو ریاستی اداروں کی خودمختاری مکمل طور پر ختم کر دیں گے۔ وہ ریاست کو اپنی ذاتی خواہشات کے تابع کر دیں گے۔ مصنفہ نے سخت خبردار کیا کہ اگر اس صورتحال کو نہ روکا گیا تو اسرائیل کی جمہوری اقدار مکمل طور پر زوال پذیر ہو جائیں گی۔ اسرائیل ایک انتہاپسند مذہبی ریاست کی صورت اختیار کر لے گا جو اندرونی طور پر غیرمستحکم ہوگا۔ اس مضمون میں اسرائیل کے اندر بڑھتی ہوئی سیاسی آمریت، ادارہ جاتی تباہی اور جمہوری اصولوں کے زوال پر ایک گہرا تجزیہ کیا گیا ہے، جو نہ صرف اسرائیلیوں بلکہ دنیا بھر کے مبصرین کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ اسرائیلی مصنفہ اورت یائل نے اپنے مضمون میں اسرائیل کے مستقبل کے حوالے سے بھی ایک نہایت سنجیدہ اور تشویشناک تجزیہ پیش کیا ہے۔ ان کے مطابق اگر موجودہ سیاسی رجحانات جاری رہے تو اسرائیل ایک نرم آمرانہ نظام (Soft Dictatorship) کی طرف بڑھ سکتا ہے جو آزادیوں کو بتدریج ختم کرے گا، اسرائیلی شہریوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرے گا اور آخرکار نیتن یاہو کے بعد کلی اور واضح آمریت کی شکل اختیار کر لے گا۔
