محمد جمیل اعجاز
تم ہمارا فخر ہو، اعزاز ہو، مان ہو۔ ہمیں تم پر ناز ہے۔ تم ہماری ضرورت ہو، ہمارے ماتھے کا جھومر ہو، ہمارے سر کا تاج ہو۔ تمہارے بغیر ہمارا کوئی کام نہیں ہوسکتا۔ تم ہمارے مکان بناتے ہو، انہیں سجاتے ہو، سنوارتے ہو۔ انہیں ہوادار بناتے ہو۔
اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر تم ہماری جانوں کو راحت پہنچاتے ہو۔ اپنا پسینہ بہا کر تم ہمارے لانوں میں لگے پودوں کو سیراب کرتے ہو۔ تمہارے بن تو ہمارے کارخانوں کی چمنیوں کا دھواں بھی تحلیل نہیں ہوتا، گندم آٹے میں نہیں بدلتی، آٹا روٹی میں نہیں ڈھلتا، ریشم کپڑا نہیں بنتی اور کپڑا لباس بن کر ہمارے جیتے جاگتے وجود کوجگمگانہیں پاتا۔ جو تم چلچلاتی دھوپوں میں کھیتوں کے اندر ہل نہ جوتو اور کسی درخت کی چھاؤں میں آرام سے پڑے رہو تو ہمیں آلو ملیں نہ گاجریں، سبزی ملے نہ ترکاری، ہمیں پھل ملیں نہ رس۔ ہمارے حلق میں کانٹے اُگ آئیں اور ہمارے قویٰ جواب دے جائیں۔ ہم تمہارے بل پر پورے شہر میں سستے داموں تھکے بغیر گھوم پھر سکتے ہیں۔ ہماری سواریاں ٹیوننگ کے لیے تمہاری مرہون منت ہیں۔ تم نہ ہو تو ہماری موٹر سائیکلیں، ہمارے گاڑیاں ایک مہینہ بھی نکال نہ پائیں۔ تم ہو تو ہمارے بالوں کی تراش خراش بھی ہوجاتی ہے، ہم ہر طرح کا فیشن کرسکتے ہیں، ہمارے پاﺅں میں چمکتا دمکتاجوتا، سینڈل، شوز تمہارے دم سے ہیں۔ ہم تو اپنے بوٹ بھی تمہارے بغیر پالش نہیں کرسکتے۔ تم نہ ہو تو ہمیں صبح کا تازہ اخبار بھی پڑھنے کو نہ ملے۔ ہم تو اپنے امتحانات کے نتائج سے بھی لاعلم رہ جائیں۔
ہماری صبحیں بھی تمہارے دم سے ہیں اور شامیں بھی ۔ تم نہ ہو تو ہماری سانسیں بند ہونے لگیں۔ تمہارے بغیر آرام دہ زندگی کا تصور ہی محال ہے۔ یقین مانو! ہم تم سے ہیں۔ ہمارا چین تم سے ہے۔ تم ہر روپ میں ہمارے اردگرد، دائیں بائیں موجود ہو۔ تم جاگتے ہو تو قومیں جاگتی ہیں۔ تمہارے دم سے اس خاموش زمین نے کئی انقلابات دیکھے ہیں۔ وہ فرانس کا انقلاب ہو یا شکاگو کا خونیں معرکہ جس میں تم جانیں دے کر بے حس، بے ضمیر لوگوں کوکچھ جھنجھوڑنے میں کامیاب ہوئے تھے اور یکم مئی کو انہوں نے تمہارے نام کرکے اپنے تئیں اپنے فرائض کا بڑا حصہ ادا کردیا۔ اس روز دنیا بھر میں ریلیاں نکالی جاتی ہیں، سیمینارز ہوتے ہیں، کانفرنسیں دھواں دھار تقریروں سے گرمائی جاتی ہیں، الیکٹرانک میڈیا پر تمہارے غم کا رونا رویا جاتا ہے مگر تمہارے تلخ اوقات نہیں بدلتے۔ تمہیں آج بھی اپنی محنت کی وصولی کے لیے کبھی کسی فیکٹری، کسی کارخانے، کسی دفتر کے آگے سوالی بننا پڑتا ہے۔ تمہیں آج بھی پسینہ کیا خون خشک ہونے سے پہلے مزدوری نہیں ملتی۔
اس کے باوجود تم برا نہ مانو تو ایک بات کہنے کو دل چاہتا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ تم مزدور ہی رہو تو اچھا ہے، آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا ورنہ ہمارا سکون، ہمارا چین، ہمارا آرام غارت ہوجائے گا۔ تم بیدار ہونے کا سوچنا بھی نہ کیونکہ پھر ہماری نیندیں حرام ہوجائیں گی۔ ہماری فلاح اسی میں ہے کہ تم محنت کش رہو اور نظام کو درہم برہم کرنے کی آرزو مت کرو۔