وزیرخزانہ کی مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام تک نہ پہنچنے پر تشویش

اسلام آباد/لاہور:وزیرخزانہ محمد اورنگزیب نے اعتراف کیاہے کہ مہنگائی میں کمی کا فائدہ عوام تک نہیں پہنچ رہا توایسے اعداد و شمار کا کوئی فائدہ نہیں۔ صوبائی حکومتیں اور انتظامیہ قیمتوں پر کنٹرول یقینی بنائیں۔ عالمی قیمتوں میں کمی کے باوجود یہاں قیمتیں اوپر جارہی ہیں ، مڈل مین من مانی کر رہے ہیں ،تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کا بوجھ زیادہ ہے، انہیں ریلیف دیں گے۔

لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ اگر پاکستان میں خود انحصاری (سیلف سسٹین ایبلٹی) حاصل کرلی جائے تو موجودہ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام ملک کا آخری قرض پروگرام ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ ہماری اصل ترجیح عام آدمی کو فائدہ پہنچانا اور معیشت کو پائیدار بنیادوں پر کھڑا کرنا ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف براہ راست ٹیکسیشن کے معاملات کو دیکھ رہے ہیں اور حکومت معیشت کی بہتری کے لیے سنجیدہ اقدامات کر رہی ہے۔

محمد اورنگزیب نے رشوت اور بدعنوانی کے حوالے سے کہا کہ تالی دونوں ہاتھ سے بجتی ہے، اگر سرکاری افسران رشوت لیتے ہیں تو کوئی دیتا بھی ہے، بزنس کمیونٹی سے اپیل ہے کہ رشوت دینا بند کریں۔انہوں نے کہا کہ ایف بی آر میں اصلاحات کے ذریعے دیانت دار افسران تعینات کیے جائیں گے۔

انہوں نے سیلری کلاس کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ 80 فیصد ٹیکس تنخواہ دار طبقے سے وصول کیا جاتا ہے، جن کے اکاؤنٹ میں رقم آتے ہی ٹیکس کٹ جاتا ہے، اس کے باوجود انہیں دفاتر کے چکر لگانے پڑتے ہیں۔

اس مسئلے کے حل کے لیے حکومت سادہ آن لائن فارم متعارف کروائے گی۔وزیر خزانہ نے سرکاری اداروں کے نقصانات پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ایس او ایز ہر سال 800 ارب سے ایک کھرب روپے کا خسارہ کر رہے ہیں، 24 اداروں کی نجکاری کی منظوری دے دی گئی ہے تاکہ اس خسارے کو کم کر کے صحت اور تعلیم جیسے شعبوں میں سرمایہ کاری کی جا سکے۔

محمد اورنگزیب نے بتایا کہ پی آئی اے اب خسارے سے نکل کر منافع میں جا چکی ہے اور جلد اس کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کی شرح میں کمی آ رہی ہے اور پالیسی ریٹ میں کمی کے باعث کاروباری استحکام بڑھ رہا ہے۔

انڈسٹری کے مسائل کا جائزہ لیا جا رہا ہے اور چیمبرز آف کامرس کے ساتھ تعاون کیا جائے گا۔آبادی اور ماحولیاتی مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے وزیر خزانہ نے کہا کہ تیزی سے بڑھتی آبادی ملک کے لیے بڑا چیلنج ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں میں پیدائش کی شرح زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے لاہور جیسے شہروں میں رہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے، لہٰذا ماحولیاتی مسائل کے حل کے لیے عوامی تعاون ضروری ہے۔وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت کا مشن پاکستان کے عوام کی خدمت ہے اور آنے والے وقت میں پائیدار ترقی کے لیے مزید مؤثر اقدامات کیے جائیں گے۔

محمد اورنگزیب نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ اوپر نیچے ہوتی رہے گی، اسٹاک مارکیٹ اوپر نیچے ہونے میں کچھ وجوہات بیرونی ہیں، ہمیں دیکھنا ہے کہ ہم صحیح سمت میں چل رہے ہیں یا نہیں؟ایک سوال کے جواب میں وزیر خزانہ کا کہنا تھا ریکوڈک ایک اہم پروجیکٹ ہے، 2028ئکے بعد ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا، بلوچستان میں ریکوڈک پروجیکٹ ہمارا خواب ہے۔

انڈونیشیا میں پچھلے سال نِکل کی ایکسپورٹ 22 بلین ڈالر رہی، 2028ء کے بعد ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہو گا۔ہم ایف بی آر میں صاف ستھرے لوگ لے کر آرہے ہیں، ہم ایف بی آر میں فارم کو 25 چیزوں پر لے کر جارہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ دیہات میں ہماری آبادی زیادہ بڑھ رہی ہے ، آج ملک کو مشکلات درپیش ہیں، سوچیے آبادی بڑھی تو کیا حشر ہو گا؟ ہمارے ملک میں 5 فیصد بچے اسکولوں سے باہر ہیں، اسکولوں سے باہر رہنے والے بچوں میں بچیوں کی تعداد زیادہ ہے، ہمیں پارلیمنٹ اور سب کے ساتھ مل کر ان معاملات سے نمٹنا ہے۔

ان کا کہنا تھا اکتوبر سے فروری تک لاہور میں ماحول کی وجہ سے سانس لینا مشکل ہو گیا ہے، بیجنگ میں کبھی سلفر کی بو ہوتی تھی، اب مطلع صاف ہے، یہ تمام پاکستان کے لیے اہم معاملات ہیں ان سے نبردآزما ہونا ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستانی مصنوعات بہترین اور گلوبل برانڈز بن سکتی ہیں۔

جی سی سی ، ایتھوپیا اور دیگر ممالک پاکستان سے برآمدات میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ہیومن انٹرایکشن کم کیے بغیر مسائل حل کرنا ممکن نہیں۔ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 13فیصد تک بڑھا کر دیگر سیکٹرز کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔

لاہور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے اس موقع پر کہا کہ صنعتی لاگت میں کمی، ٹیکس ریفارمز اور تجارتی حکمت عملی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ انڈسٹری کی بحالی کے لیے حکومت اور چیمبرز کے قریبی روابط ناگزیر ہیں۔ سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے ریگولیٹری رکاوٹیں ختم کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ صنعتی ترقی کے لیے طویل المدتی پالیسی کی ضرورت ہے۔ پالیسی سازی میں پرائیویٹ سیکٹر کو شامل کیا جائے۔ روپے کی قدر کو مستحکم رکھنے کے لیے اقدامات کرنا ہوں گے۔ برآمد کنندگان کے لیے ٹیکس ریفنڈز کی بروقت ادائیگی یقینی بنائی جائے۔

ادھرپاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان آئندہ مالی سال کے بجٹ پر مذاکرات آئندہ ہفتے شروع ہونے کا امکان ہے جب کہ بجٹ میں ریٹیلرز، ہول سیلرز اور مختلف شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، زیادہ پنشن لینے والوں کیلئے ٹیکس استثنیٰ ختم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

رپورٹ کے مطابق ان مذاکرات میں بجٹ میں ٹیکس اصلاحات کے حوالے سے آئی ایم ایف کو اعتماد میں لیا جائے گا جس کے تحت اقتصادی زونز کو ٹیکس چھوٹ نہ دینے، پیٹرول و ڈیزل پر کاربن لیوی عائد کرنے اور الیکٹرک گاڑیوں کو مراعات دینے کی تجاویز زیر غور ہیں۔

ذرائع کے مطابق آئندہ مالی سال 26ـ2025ء کے بجٹ کیلئے ٹیکس تجاویز پر کام تیزی سے جاری ہے، آئی ایم ایف کے تکنیکی وفد سے مذاکرات آئندہ ہفتے شروع ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ذرائع کے مطابق ان مذاکرات میں وزارت خزانہ اور ایف بی آر کے اعلیٰ حکام شریک ہوں گے۔

فیصلہ کیا گیا ہے کہ نئے اقتصادی اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کو ٹیکس مراعات نہیں دی جائیں گی جب کہ موجودہ خصوصی اقتصادی زونز کو حاصل مراعات 2035ء تک ختم کردی جائیں گی۔ذرائع کے مطابق کلائمیٹ فنانسنگ پروگرام کے تحت پیٹرول اور ڈیزل پر فی لیٹر پانچ روپے کاربن لیوی عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ کاربن لیوی کی حد اور اس کے نفاذ کے طریقہ کار پر مشاورت کی جائے گی، کاربن لیوی کو اگلے مالی سال کے فنانس ایکٹ کا حصہ بنایا جائے گا۔ذرائع کے مطابق نئے بجٹ میں الیکٹرک گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔

اس حوالے سے ای وی گاڑیوں پر سبسڈی جبکہ دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں پر اضافی ٹیکس لگانے کی تجویز دی گئی ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پانچ سالہ نئی قومی الیکٹرک وہیکل پالیسی متعارف کرانے کی بھی تیاری ہورہی ہے جس کے تحت ملک بھر میں ای وی چارجنگ اسٹیشنز قائم کیے جائیں گے۔