بائیس اکتوبر 2014ءکو یہاں امارات کی ریاست شارجہ کے سینٹرل اسپتال میں نرس نے مجھے میرے بیٹے سفیان کی دنیا میں آنے کی خوشخبری دی۔
میں تیزی سے زچگی کے کمرے کی طرف دوڑا اور پہلی بار اسے اپنی بانہوں میں اٹھایا۔ پہلی بار اس لیے کیونکہ اس سے پہلے ایک بیٹے اور بیٹی کی پیدائش پاکستان میں میری عدم موجودی میں ہوئی تھی۔ خوشی سے میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور مجھے اس سے گہرا لگاو محسوس ہوا، بغیر یہ جانے کہ یہ بڑی بڑی آنکھوں والا خوبصورت بچہ بعد میں مجھے ایک غیر معمولی جدوجہد کرنے والا باپ بنا دے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ میں اپنے بیٹے کے چہرے کو غور سے دیکھتا رہا، اسے اپنی آنکھوں کے سامنے بڑا ہوتے ہوئے دیکھتا رہا اور یوں اس کے بچپن کے حسین لمحات کو اپنے دل میں محفوظ کرتا گیا۔ میرا بیٹا ایک سال کا ہوا، پھر دو سال کا، پھر تین کا۔ بیٹا چونکہ جسمانی اعتبار سے نہ صرف یہ کہ صحتمند تھا بلکہ قد کاٹھ اور ظاہری صورت میں سے دوسروں پر فائق بھی تھا اس لیے اس کے آٹسٹک ہونے کا احساس تک نہ ہوا۔
اس وقت تک میں اپنے بیٹے کو کبھی ڈاکٹر کے پاس نہیں لے کر گیا تھا، سوائے کچھ معمول کی ویکسینیشنز کے۔ اس کا دل بالکل ٹھیک تھا، پھیپھڑے صحیح کام کر رہے تھے اور اسے کوئی اور طبی مسئلہ بھی نہیں تھا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ جو چیز مجھے قدرے غیر معمولی لگی، وہ کچھ مخصوص رویے تھے۔ جیسے ہاتھوں کو پھڑپھڑانا، اپنے گرد گھومنا، ہر وقت اپنے آپ میں گم رہنا، کسی ایک طرف توجہ مرکوز نہ کرپانا، باتیں کھل کر نہ کرسکنا، حرکات و سکنات میں ہم آہنگی کا نہ پایا جانا، ایک ہی جیسا کام بار بار کرنے سے بور نہ ہونا اور توڑ پھوڑ کا بےحد شوقین ہونا۔ یہ عادات آہستہ آہستہ بولنے میں تاخیر کے ساتھ نمودار ہوئیں اور مجھے حیران کرنے لگیں، مگر میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ سب ایک پوری تقدیر کا پیش خیمہ ہے!ان علامات کے بعد بچے کی ماں سے بات کی کہ مجھے یہ بچہ نارمل نہیں لگ رہا، اس لیے ہمیں ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے لیکن مائیں آسانی سے کہاں اپنے بچے کی بیماری تسلیم کرتی ہیں۔ کہنے لگی: آپ خواہ مخوا شک کرتے ہیں، یہ ابھی بچہ ہے خود ٹھیک ہو جائے گا۔ میری تشویش مگر برقرار رہی، اس لیے میں اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی، کیونکہ اس وقت بیٹا چھ سال کا ہوچکا تھا۔ اللہ بہتر جانتا ہے لیکن لوگ کہتے ہیں کہ اگر ابتدائی ایک دو سال میں تشخیص ہو جائے تو علاج ممکن ہوتا ہے۔

ڈاکٹر سے ملاقات ختم ہوئی تو میرے ہاتھوں میں طبی رپورٹس تھیں جو یہ بتا رہی تھیں کہ میرا بیٹا آٹزم کا شکار ہے! ان لمحوں میں، میں نے خود کو ایک گہرے سمندر میں محسوس کیا، جیسے میرے ہاتھوں میں ایک نایاب جوہر ہو جسے میں ہر قیمت پر بچانا چاہتا ہوں، لیکن مجھے تیرنا نہیں آتا۔ اس وقت میرے پاس بچاو کا واحد راستہ یہی تھا کہ ڈوبتے ہوئے تیرنا سیکھوں، تاکہ اپنی قیمتی جوہر کو محفوظ کنارے تک پہنچا سکوں۔ یہ نایاب گوہر اب آنے والے اکتوبر میں ان شاءاللہ گیارہ سال کا ہو جائے گا اور صورتحال یہ ہے کہ آٹزم کا علاج اب تک دریافت نہیں کیا جا سکا ہے۔ متاثرہ بچوں کے والدین کے طور پر ہماری سب سے بڑی فکر یہ ہے کہ ہمارے بعد اس کے ساتھ کیا ہوگا۔ کیا ہم اپنے بیٹے کو کام کرتے ہوئے جوان ہوتے ہوئے،شادی کرتے ہوئے اور اپنے الگ گھر میں رہتے ہوئے دیکھ سکیں گے؟ اور کیا جب ہماری آنکھیں بند ہوں تو ہم اپنے جگر کے ٹکڑے کے لیے مطمئن ہوں گے؟! یہ فکر ویسے ماں باپ دونوں کو ہی ہوتی ہے لیکن ماں ظاہر ہے کہ زیادہ حساس ہوتی ہے، کیونکہ ماں ہونا بذات خود ایک بہت بڑا اعزاز ہے، لیکن جب ماں کو آٹزم اسپیکٹرم کے ایک بچے کا تحفہ ملتا ہے تو یہ لقب اور بھی وزنی، قیمتی اور روشن ہو جاتا ہے۔
یقینا ماں بننا بذات خود بھی ایک حیرت انگیز تجربہ ہے، آٹسٹک بچے کی ماں ہونا مگر ایک ایسا انوکھا سفر ہے جو ہر لمحہ حیرت انگیز دریافتوں سے بھرا ہوتا ہے۔ آٹزم کا شکار بچے کی ماں ہونے کا مطلب ہے ایک غیر معمولی زندگی جینا، ہر سادہ چیز کو پہلی بار دیکھنے کی طرح دوبارہ دریافت کرنا۔ ایک لفظ پر جشن منانا اور ایک مسکراہٹ پر خوشی محسوس کرنا جو آپ کے دل میں سورج طلوع کر دیتی ہے۔ ایسی ماں کا مطلب ہے کہ ایک ایسے مختلف بچے کا مترجم بننا جس کی زبان کو دوسرے نہیں سمجھتے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ آٹزم کے شکار بچے اپنی ماوں کا انتخاب خود کرتے ہیں تاکہ اس مشکل اور دلکش سفر کی رفاقت میں وہ ساتھ رہیں، تاکہ وہ اپنی چھوٹی انگلیوں کو ایسی جراتمند ماوں کے ہاتھوں میں تھمائے، جو ان کے معصوم آنسووں کے دھاگوں سے مسکراہٹ بن سکتی ہیں، مایوسی سے امید پیدا کر سکتی ہیں اور درد کے جسم سے خوشی نکال سکتی ہیں۔ تو پھر اے میرے لخت جگر سفیان! ذرا بتا تو سہی کہ تم نے اپنی ماں کو کیسے چنا؟ وہ کونسی روشنی تھی جس نے تمہاری روح کو اس کی روح میں دیکھنے پر مجبور کیا کہ تم نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دیا اور اپنی شاندار دنیا کی چابیاں اس کے سپرد کر دیں؟ وہ دنیا جو انسانوں کے شور سے دور اور آسمان کے سناٹے کے قریب ہے۔
وہ ماں جو کہتی ہے کہ اگر مجھے دوبارہ اس پہلے لمحے میں لوٹایا جائے، جہاں میں ایک روح تھی جو کائنات میں گھوم رہی تھی اور مجھ سے پوچھا جاتا: کون سی تقدیر پسند کرو گی؟ تو میں کہتی: میری تقدیر اس خوبصورت بچے کے ساتھ جڑی ہو جو مجھے وہ سب سکھائے گا جو میں اسکول میں نہ سیکھ سکی۔ اس نے مجھے سکھایا کہ خاموشی بھی ایک زبان ہے، تنہائی بھی ایک ہجوم ہے، اور جب وہ خاموش، الگ تھلگ ہاتھ میرے آنسو بھری ہتھیلی پر رکھتا ہے، تو وہ میرے تمام غموں کو مسکراہٹوں میں بدل کر زندگی کی ساری سختیوں کو رحمان کے در پر پگھلا دیتا ہے۔ میرے پیارے بیٹے، تمہیں شاید سمجھ میں نہ آئے لیکن دنیا گواہ رہے کہ میرے اور تیری ماں کے لیے تم خالق کائنات کا ایک عظیم تحفہ ہو، جس نے ہمیں چنا تاکہ ہمارے دل اس کی یاد سے معمور اور ہماری زبانیں اس کی حمد و ثناءاور شکر سے تر رہیں۔ جن والدین کا بچہ آٹزم کا شکار ہے، میں اس کالم کے ذریعے ان سے کہنا چاہتا ہوں: سب کو بتائیں کہ جو آپ کے ساتھ ساتھ چل رہا ہے، وہ کوئی اور نہیں بلکہ آپ کا بیٹا/ بیٹی ہے۔ اسے معاشرے اور دنیا کے سامنے پوری طاقت اور بہادری کے ساتھ پیش کریں۔ آپ کی طاقت ہی آپ کے بیٹے کو مضبوط بنا سکتی ہے۔ ہمارے بچے ہماری زندگی کی روشنی ہیں، تو بھلا ہم روشنی پر شرمندہ کیوں ہوں؟ آزمائش صرف اسپیشل بچے ہی نہیں ہوتے بلکہ تمام اولاد کو قرآن نے آزمائش کہا ہے۔ آزمائش یہ ہے کہ انسان اولاد کی محبت میں منہمک ہو کر اللہ تعالیٰ کے احکام سے غافل ہوتا ہے یا نہیں۔ کامیاب اور عند اللہ اجر کا مستحق وہی ہوگا جس نے ایسی غفلت سے اپنے آپ کو بچالیا!