حقُ المِلح، عیدالفطر پر عرب دنیا کی ایک منفرد روایت

ابوصوفیہ چترالی
آپ نے حق مہر تو بہت سنا ہے مگر حق الملح (یعنی حق نمک) کے بارے میں شاید کبھی نہیں سنا ہوگا۔ عرب ممالک بالخصوص شمالی افریقہ کے المغرب العربی کے ممالک (مراکش تیونس وغیرہ) میں حق الملح نامی شاندار روایت خاصی مقبول ہے۔
ماہِ رمضان میں خواتین سحری و افطاری تیار کرتی ہیں، اس سلسلے وہ بڑی قربانیاں دیتی ہیں۔ راتوں کو انہیں جلدی جاگ کر سحری اور دن کو بھی افطاری کی تیاری میں جتنا پڑتا ہے۔ پھر بالخصوص موسم گرما میں روزہ رکھ کر چولہے کی تپش سہنا آسان نہیں ہوتا۔ خواتین کی اِن قربانیوں اور خدمات کا وہاں کے مردوں کو نہ صرف احساس ہے بلکہ وہ عید کے موقع پر اُن کی خدمت کا بدلہ بھی دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس موقع پر بیگمات کا اکرام ایک خصوصی گفٹ سے کرنے کو حق الملح (نمک کا حق) کہا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ عیدالفطر کے دن جیسے ہی میاں نمازِ عید پڑھ کر گھر پہنچیں گے تو اہلیہ گھر کی تیاری اور سجاوٹ کے بعد خود بھی نئے کپڑے پہن کر تیار ہوکر شوہر سے عید ملیں گی اور مٹھائی کے ساتھ چائے یا قہوہ پیش کریں گی۔ اصل راز اسی پیالہ میں پنہاں ہوتا ہے۔ میاں قہوہ پی کر پیالی کو خالی نہیں بھیجیں گے بلکہ اسی پیالی میں سونے کی لاکٹ، انگوٹھی یا ایسا کوئی اور زیور رکھ کر اہلیہ کی خدمت میں پیش فرمائیں گے۔
بعض لوگ موٹی رقم رکھتے ہیں جبکہ بعض خوشحال افراد حق الملح میں گاڑی گفٹ کرنا پسند کرتے ہیں تو اس پیالی میں وہ گاڑی کی چابی رکھ کر بیگم کو پیش کرتے ہیں۔حق الملح میں ملنے والی ایک گاڑی کا گزشتہ برس سوشل میڈیا میں بڑا چرچا ہوا تھا جسے ایک شوہر نے اپنی خوش بخت بیگم کے چرنوں میں بطور نذرانہ پیش کیا۔ اِس کے ساتھ اُردن کی ایک خبر بھی وائرل ہوئی تھی۔ اس اردنی شوہر نے بھی رمضان بھر شاندار پکوان اور مختلف سہولیات کی فراہمی سے خوش ہوکر بیوی کو عید پر قیمتی تحفہ دے کر خوش کردیا۔ الامارات الیوم کے مطابق اردنی نوجوان نے 30 ہزار دینار مالیت کی عیدی اہلیہ کو تحفے کے طور پر دی۔ انہوں نے 1500 دینار نقد، سونے کے 30 سکے اور اہلیہ کے رشتہ داروں کو عمان کے اعلیٰ درجے کے ہوٹل میں رہائش کا پیکیج دیا تھا۔
سرایا نیوز کے مطابق ایک شوروم کے مالک نے فیس بک پر اس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”نوجوان نے رمضان المبارک کے دوران اپنی اہلیہ کی بے لوث خدمت سے متاثر ہوکر اسے عید کا شان دار تحفہ دیا۔“ صارفین نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ”شوہر نے حق نمک ادا کردیا۔“ مغربی عرب کے ملکوں میں یہ روایت ہے جسے ’حق الملح‘ کہا جاتا ہے، یہ رواج شام اور مشرق عربی کے ملکوں میں نہیں ہے۔ عرب ممالک میں خاص کرکے تیونس کے لوگ عیدالفطر کو بہت سی رسومات اور روایات کے ساتھ مناتے ہیں جن میں سے کچھ تمام عرب ممالک میں عام ہیں جیسے مٹھائیاں بنانا، نئے کپڑے خریدنا اور مبارکباد کے تبادلے کے لیے جانا، ان میں سے کچھ زیادہ خاص ہیں جیسے کہ ”نمک کا حق“ جس پر خواتین اور لڑکیاں عید کے موقع پر بڑی شدت سے اس کا انتظار کرتی ہیں۔ اس انعام کے لیے وہ پورا رمضان بڑے شوق کے ساتھ کھانا پکانے اور سحری کے انتظامات تیار کرنے مگن ہوتی ہیں۔
حقِ نمک نام کا اصل تعلق اِس حقیقت سے ہے کہ بیوی جب رمضان کے مہینے میں اپنے گھر والوں کے لیے کھانا تیار کرتی ہے تو بعض اوقات وہ نگلے بغیر کھانا چکھنے پر مجبور ہوتی ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ کھانے میں نمک کی مقدار معتدل ہے۔ عرب تاریخ میں مہارت رکھنے والے سعید مرموش نے اسکائی نیوز عربیہ سے بات کرتے ہوئے ”نمک کا حق“ کی کہانی کی ابتدا کے بارے میں بتایا: ”یہ رواج عثمانیوں کے دور میں شروع ہوا جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ عید کی صبح ایک مالدار تاجر اپنے اہل خانہ کے ساتھ بیٹھا تھا اور اپنے بچوں میں وہ ”عید کا تحفہ“ تقسیم کر رہا تھا جو چاندی اور سونے کے سکے تھے۔ یہاں تک کہ اس کا ایک ٹکڑا کافی کے کپ میں گرا اور بیوی نے مذاق کے طور پر کہا: یہ میرا حصہ ہے۔ جب وہ کپ دھو رہی تھی تو بیوی کو معلوم ہوا کہ سکہ بہت چھوٹا ہے تو اس نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ یہ رقم اس نمک کی قیمت کے برابر بھی نہیں ہے جسے اس نے چکھ لیا تھا، یعنی اس کی قیمت تو بہت کم ہے۔ شوہر نے اسے ایک سونا کے کا دینار دے دیا۔ پھر بیوی نے جا کر اپنے پڑوسیوں کو یہ جملہ سنایا: ”چکھنے والے نمک کی قیمت دیکھو“ اور اس کے بعد سے عید کی صبح بیوی کو تحفہ دینا ایک عام رواج بن گیا۔“
مرموش نے نشاندہی کی کہ تیونس میں ’نمک کا حق‘ کے نام سے جانا جانے والا رواج لیبیا میں ”الکبیرہ“ کے نام سے، مراکش میں ”تکبیرہ“ اور الجزائر میں ”کھانے کا حق“ کے نام سے موجود ہے اور اسے اظہارِ محبت اور پیار کی علامت خیال کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: ماضی میں خواتین زیادہ مشکل حالات میں کھانا پکاتی تھیں کیونکہ وہاں کوئی تندور، بیکریاں یا ریستوراں نہیں تھا اور خاندان بڑے ہوتے تھے جس کی وجہ سے خواتین کو سحری بنانے کے لیے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس لیے ان کی دل جوئی کی خاطر ’حق الملح‘ کا رواج شروع ہوگیا۔