عید خوشیوں کا دن ہے، ہنسی اور مسرت کا تہوار، جب بچے نئے کپڑے پہنتے ہیں، مٹھائیاں کھاتے ہیں اور اپنے والدین اور عزیزوں کے ساتھ خوشی مناتے ہیں لیکن فلسطین کے مظلوم بچوں کے لیے عید کا دن خوشیوں کی بجائے ایک اور صدمے کی علامت ہوتا ہے۔
جب دنیا کے بچے صبح عید کی تیاریوں میں مصروف ہوتے ہیں، فلسطینی بچے جنگ کے دھوئیں میں لپٹے اپنے گھروں کے ملبے سے زندگی کی نشانیاں تلاش کر رہے ہوتے ہیں۔ ان کی آنکھوں میں وہ چمک نہیں ہوتی جو عام بچوں کی ہوتی ہے بلکہ ان کی پلکوں پر غم کے بھاری آنسو لرز رہے ہوتے ہیں۔
جہاں دنیا کے بچے اپنے والدین سے عیدی وصول کرتے ہیںوہاں فلسطینی بچے قبرستانوں میں اپنے والدین کی قبروں پر کھڑے ہو کر ان کی یاد میں آنسو بہاتے ہیں۔ ان کے لیے عید کا مطلب اپنے پیاروں کی قبروں کو پانی دینا، گھروں کے ملبے میں دبے کھلونوں کو ٹٹولنا اور اپنے شہید بہن بھائیوں کی یاد میں آسمان کی طرف دیکھنا ہے۔ ان کے نئے کپڑے خون آلود کفن میں بدل چکے ہوتے ہیں، ان کے چہروں کی معصوم مسکراہٹیں جنگ کی بھیانک حقیقتوں میں کھو چکی ہوتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں عیدی کے سکے نہیں بلکہ پتھر ہوتے ہیں، جن سے وہ اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہیں۔
جب پوری اُمت مسلمہ خوشی سے سرشار ہو کر عید کے پکوان تیار کر رہی ہوتی ہے، فلسطینی مائیں اپنے بچوں کی خون میں لت پت لاشوں کو سینے سے لگا کر آنسو بہا رہی ہوتی ہیں۔ جب دنیا کے بچے کھلونے خریدنے بازاروں میں جاتے ہیں، فلسطینی بچے دوائیوں اور کھانے کے لیے قطاروں میں کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے گھروں میں رنگ برنگے قمقمے نہیں جھلملاتے، بلکہ راکٹوں اور گولیوں کی آگ ان کے آشیانوں کو خاکستر کر رہی ہوتی ہے۔ ہر گزرتی عید ان کے لیے ایک نیا زخم لے کر آتی ہے، ایک نیا صدمہ دیتی ہے، ایک اور عزیز چھین لیتی ہے۔
یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی امت مسلمہ خاموش کیوں ہے؟ کیا ہمیں ان بچوں کی سسکیاں سنائی نہیں دیتیں؟ کیا ان کی چیخیں ہمارے دلوں کو ہلا نہیں دیتیں؟ ہم سوشل میڈیا پر عید کی خوشیوں کی تصویریں تو شیئر کرتے ہیں، لیکن فلسطینی بچوں کی دردناک حقیقت سے آنکھیں چرا لیتے ہیں۔
ہماری مساجد میں فلسطین کے حق میں دعائیں تو کی جاتی ہیںمگر عملی طور پر ہم کچھ نہیں کرتے۔ ہمارے حکمران بیانات اور قراردادوں میں الجھے رہتے ہیں جبکہ فلسطینی بچے اپنے خون سے آزادی کی تاریخ لکھ رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنی بے حسی کی چادر ایسی تان لی ہے کہ نہ ان معصوموں کے آنسو ہمیں دکھائی دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی تکلیف کا احساس ہوتا ہے۔
یہ وقت جاگنے کا ہے، وقت ہے کہ ہم اپنے فلسطینی بھائیوں کے لیے کچھ عملی اقدامات کریں۔ ہمیں اپنی دعاوں کے ساتھ ساتھ اپنی زکوٰة، صدقات اور عطیات ان بچوں تک پہنچانے کے لیے مستند ذرائع تلاش کرنے چاہئیں۔ ہمیں اپنی حکومتوں پر دباو ڈالنا چاہیے کہ وہ فلسطینی عوام کی مدد کے لیے موثر اقدامات کریں۔ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کو فلسطین کے بارے میں شعور دینا چاہیے تاکہ وہ امت مسلمہ کے حقیقی درد کو محسوس کر سکیں۔ اگر ہم عملی طور پر کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم ان کے لیے دعا ہی کر لیں کیونکہ دعا مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
فلسطینی بچوں کی عید ہر سال ایک نیا نوحہ بن کر آتی ہے، ایک نئی کہانی سناتی ہے اور اُمت مسلمہ کی بے حسی پر سوالیہ نشان چھوڑ جاتی ہے۔ اگر ہم نے اب بھی کچھ نہ کیا تو تاریخ ہمیں ظالموں کے ساتھیوں میں شمار کرے گی۔
کیا ہم واقعی اس جرم میں شامل ہونا چاہتے ہیں؟ یا ہم ان مظلوموں کے لیے کچھ کر کے اپنے ضمیر کو مطمئن کریں گے؟ یہ فیصلہ ہمیں خود کرنا ہے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے اور ہم دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں رسوا ہو جائیں اور خدا کو منہ دکھانے کے قابل بھی نہ رہیں۔