سوڈانی فوج کے سربراہ جنرل عبد الفتاح البرہان نے دارالحکومت خرطوم کو ریپیڈ فورسز کے قبضے سے آزاد کروانے کا اعلان کردیا۔
سوڈانی فوج نے خرطوم میں واقع ریپبلکن پیلس پر قبضہ کر لیا ہے جو حریف نیم فوجی دستوں کا دارالحکومت میں آخری گڑھ تھا۔ریپبلکن پیلس جنگ شروع ہونے سے قبل حکومت کا مرکز تھا۔ اس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کے بعد یہ سوڈان کی فوج کے لیے ایک اور کامیابی ہے۔سوڈانی فوج نے یہ کامیابی ایک ایسے وقت حاصل کی ہے جب اپریل میں سوڈان میں پیرا ملٹری فورسز اور سرکاری آرمی کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کے دو سال ہوگئے۔ سوڈانی فوج گزشتہ دو سال سے پیرا ملٹری فورس کے ساتھ جنگ میں ہے تاہم فوج نے حالیہ مہینوں میں آرمی چیف جنرل عبدالفتاح برہان کی قیادت میں مسلسل پیش قدمی کی ہے۔ سوڈانی فوج اس سے قبل جنرل انٹیلی جنس ہیڈ کوارٹر ،مرکزی بینک اور دیگر اہم دفاتر اور عمارتوں کو آر ایس ایف کے کنٹرول سے آزاد کروانے میں کامیابی حاصل کرچکی ہے۔ صدارتی پیلس کے کنٹرول میں لینے کے بعد جنرل عبد الفتاح البرہان ہیلی کاپٹر کے ذریعے خرطوم ائیر پورٹ پہنچے اور وہاں سے صدر ہاوس پہنچ گئے جہاں سے انہوں نے کامیابی کا اعلان کیا۔ عرب میڈیا کے مطابق فوج کے خلاف لڑنے والے جنرل محمد حمدان دغلو کے ماتحت حریف ریپڈ سپورٹ فورسز (آر ایس ایف) کو دارالحکومت خرطوم سے بے دخل کر دیا گیا ہے۔
سوڈان میں جنگ اپریل 2023ء میں شروع ہوئی تھی۔آر ایس ایف نے فوری طور پر اس نقصان کو تسلیم نہیں کیا ہے، جس سے یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ لڑائی نہیں رکے گی کیونکہ اس گروپ اور اتحادیوں کے پاس اب بھی سوڈان میں کئی علاقے ہیں۔ سوڈان میں 2019ء میں صدر عمر البشیر کے خلاف عوامی مظاہروں کا آغاز ہوا۔صدر عمر البشیر سال 1989ء میں اسلام پسندوں کی سپورٹ سے فوجی انقلاب کے نتیجے میں برسراقتدار آئے تھے، جس کے بعد عمر البشیر اور ان کی جماعت ’نیشنل کانگریس‘ نے 30 برس تک اقتدار کو سنبھالا۔ مذکورہ انقلاب کے ذریعے اُس وقت کے منتخب وزیراعظم الصادق المہدی کی حکومت کو ختم کر دیا گیا تھا۔ 1956ء میں سوڈان کی آزادی کے بعد سے اب تک عمر حسن البشیر کو طویل ترین عرصے تک صدارت کے عہدے پر فائز رہنے کا اعزاز حاصل رہا۔
سوڈان میں عوامی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ 16 دن تک جاری رہا جس کے بعد سوڈانی فوج نے 11 اپریل کو عمر البشیر کی حکومت کی بساط الٹ دی تھی۔ صدر کی معزولی کے بعد فوج نے عسکری عبوری قائم کی تھی۔اس کونسل کے چیئرمین میجر جنرل عوض بن عوف تھے۔ اس کونسل میں فوجی جرنیلوں کے ساتھ سولین بھی شامل تھے، تاہم بعدازاں انہوں نے عہدے سے استعفا دیتے ہوئے جنرل عبدالفتاح البرہان کو عسکری کونسل کا نیا سربراہ مقرر کیا جس کے بعد اس کونسل میں متعدد تبدیلیاں کی گئیں۔ کچھ عرصے بعد جنرل البرہان نے دسمبر 2020ء میں اسرائیل کو تسلیم کرلیا جس پر ان رپورٹوں کو تقویت مل گئی جن کے مطابق سوڈان میں ہونے والی بغاوت کے پیچھے اسرائیل اور اس کے حامی قوتوں کا تعاون حاصل رہا۔ جنرل عبد الفتاح البرہان نے بعدازاں 25 اکتوبر 2021ء کو اس خود مختار کونسل پر شب خون مارا جس کے ساتھ عسکری قیادت نے شرکت اقتدار کا معاہدہ کر رکھا تھا۔ وزیراعظم عبداللہ حمدوک کو گرفتار کر کے ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی۔
نومبر میں جنرل البرہان نے نئی عبوری کونسل کے قیام کا اعلان کیا جس کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان خود مقرر ہوگئے جبکہ پیراملٹری فورس کے سربراہ محمد حمدان دغلو کو نائب بنادیا گیا۔ 2022ء میں سوڈان میں فوج کی جگہ عبوری سول حکومت کے قیام کامعاہدہ طے پاگیا۔ اس معاہدے میں طے پایا تھا کہ سیاسی فریم ورک معاہدے کے تحت سوڈانی فوج ملکی سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلے گی اور جمہوری عبوری سول انتظامیہ میں افواج کی کسی بھی طرح شراکت داری نہیں ہوگی۔ سیاسی فریم ورک کے تحت قانون کی بالادستی اور پرامن انتقال اقتدار کا نظام رائج کیا جائے گا۔ فوج کی واحد ذمہ داری ملکی سرحدوں کی حفاظت اور جمہوری سول حکومت کا دفاع کرنا ہے۔ سیاسی فریم ورک کے مطابق مسلح افواج ملکی سیکیورٹی اور دفاعی پیشہ ورانہ امور پر توجہ دے گی۔تاہم معاہدے کے باوجود بھی سوڈان پر حکومت فوجی جنرل کر رہے تھے۔ دو بڑے دھڑوں کے سربراہان، فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح برہان اور پیرا ملٹری فورس ریپڈ سپورٹ فورسز کے سربراہ جنرل محمد ہمدان کے بیچ اقتدار سول حکمرانوں کے حوالے کرنے پر تنازع تھا۔
تنازع کی وجہ یہ تھی کہ سوڈان میں اقتدار سول حکمرانوں کو واپس کرنے کی تجویز زیر غور تھی، تاہم اس تجویز پر عملدرآمد آر ایس ایف نامی پیرا ملٹری فورس کو باقاعدہ فوج میں ضم کرنے کے معاملے کی وجہ سے رکا ہوا تھا۔آر ایس ایف چاہتی تھی کہ یہ کام 10 سال تک ملتوی کیا جائے جبکہ فوج دو سال کے اندر اندر آر ایس ایف کو ضم کرنا چاہتی تھی۔ ایک تنازع اس بات پر بھی تھا کہ ضم ہو جانے کے بعد نئی فوج کی قیادت کون سنبھالے گا۔یہی تنازع بڑھتے ہوئے جنگ میں تبدیل ہوگیا اور یوں 15 اپریل 2023ء کو باقاعدہ پیرا ملٹری فورس اور سوڈانی آرمی کے درمیان خانہ جنگی کا آغاز ہوگیا۔سوڈان کی پیرا ملٹری فورس ماضی میں نوے کی دہائی میں دارفور میں خانہ جنگی میں بدترین کردار ادا کرنے والی ملیشیا ہے، جس کا نام جنجوید یا جنجواد تھا۔ چھ فٹ کے دیوہیکل سیاہ فام جنگجو جب گھوڑوں پر بیٹھ کر کسی بستی پر حملہ آور ہوتے تھے تو پوری بستی کو اجاڑکر رکھ دیتے تھے جس کی وجہ سے ان کا نام جنجواد پڑا۔ جو جن اور جواد یعنی گھوڑا سے مرکب ہے۔ جنجواد کو بعدازاں عمر البشیر نے 2013ء میں سرکاری حیثیت دے دی اور فورس کے سربراہ جنرل حمدان دقلو کو جنرل رینک پر ترقی دے دی۔ اس کے بعد یمن اور لیبیا کی لڑائی میں بھی اس فورس کا کردار رہا۔ جنجواد کو ریپیڈ فورسز (الدعم السریر) کانام دیا گیا۔ یہ انتہائی ماہر تجربہ کار اور بے رحم ملیشیا ہے جس کے بیشتر افراد قبائلی ہیں۔
آر ایس ایف کے فوجیوں کی تعداد حالیہ خانہ جنگی سے قبل تقریباً ایک لاکھ تھی اور دوران جنگ اس میں بڑی تعداد بھرتی ہوئی ہے۔ آر ایس ایف کے سربراہ جنرل ہمدان ملک کے نائب صدر بھی تھے۔ اس فورس کے پاس سوڈان میں سونے کے بیشتر کان اس کے قبضے میں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سوڈان کی حالیہ لڑائی میں بھی متعدد علاقائی اور خارجی قوتیں اس ملیشیا کی پشت پر کھڑی تھیں۔ سوڈان کے اٹھارہ صوبوں میں آر ایس ایف کو بیشتر علاقوں پر کنٹرول حاصل ہوا تھا تاہم رواں برس اچانک بازی پلٹ گئی اور اس گروپ کو خرطوم سے قبل سنار، النیل الابیض ، الجزیرہ اور کردفان میں شکست ہوگئی۔ خرطوم کے جنوبی حصے میں واقع فوجی بیس ہی وہ علاقہ تھا جہاں سے اپریل 2023ء کو لڑائی شروع ہوئی تھی اور اس فوجی چھاونی پر ریپیڈ فورسز نے پہلا قبضہ کرکے سوڈانی فوج کو پسپا کردیا تھا۔ سوڈان کی دو سالہ خانہ جنگی کے دوران ریپیڈ فورسز نے جن علاقوں پر قبضہ کیا ہے وہاں بدترین لوٹ مار اور تباہی مچائی ہے جس کے آثار ابھی اس ملیشیا کی سفاکیت کی کہانیاں سنارہے ہیں۔
