(یاسر محمود آرائیں)
افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہونے سے قبل ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ پاکستان میں دہشت گردی افغانستان میں غیرملکی افواج سے تعاون کے ردعمل میں ہوتی ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد افغان طالبان کے مطالبے پر حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ بھی کیا تھا۔ یہ معاہدہ بھی ماضی کے معاہدوں کی طرح محض چند ماہ ہی چل سکا اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے اس مہلت کا فائدہ اٹھا کر اپنی قوت مجتمع کرلی اور پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ دہشت گردانہ کارروائیاں شروع کر دیں۔
افغان طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد میں وطن عزیز بد امنی کی لہر روز بروز بڑھتی جارہی ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب ملک کے کسی علاقے سے دہشت گردانہ حملے یا پھر مغربی بارڈر پر افغان فورسز کی فائرنگ کی خبر نہ ملے۔ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ ٹی ٹی پی کو افغانستان کی ریاستی سرپرستی و وسائل میسر ہیں۔ افغانستان سے غیرملکی افواج کے انخلا اور مذکورہ معاہدے کی ناکامی کے بعد ہمارے ہاں امن و امان کی روز بروز مخدوش ہوتی صورتحال سے یہ مفروضہ غلط ثابت ہو چکا ہے غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان میں دہشت گردی دم توڑ جائے گی۔
پچھلے کئی برسوں سے ہمارا ریاستی بیانیہ یہ رہا ہے کہ “کالعدم تحریک طالبان پاکستان“ دراصل بھارت کی آلہ کار جماعت ہے اور افغان طالبان کا اس گروہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس تنظیم کو افغانستان میں امریکی کٹھ پتلی حکومتیں محفوظ ٹھکانے فراہم کرتی ہیں جس کی بدولت وہ دہشت گردی کی کارروائیاں کرتی ہے۔ ہمارے ہاں ہونے والی 80 ہزار سے زائد شہادتوں اور تخریب کاری کی تمام وارداتوں کا ذمہ دار ہمیشہ ٹی ٹی پی اور اس کی سرپرست امریکا، بھارت اور افغان حکومتوں کو قرار دیا جاتا رہا۔ کئی مرتبہ اعلان ہوا کہ ہماری طرف سے ٹی ٹی پی کی اعلیٰ قیادت کے خلاف افغان حکومت کو ثبوت فراہم کیے گئے ہیں اور اس کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے لیکن ہماری متعدد درخواستوں کے باوجود افغان حکومت ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی۔ کئی بار پاکستان نے ان دہشت گرد گروہوں کی کارروائیوں کے بارے اقوام متحدہ اور یورپی یونین کو آگاہ کیا اور ہندوستان کی پاکستان میں مداخلت کے ثبوت دنیا بھر کو فراہم کئے۔ کہا جاتا تھا کہ ہماری کوششوں کا اس لیے فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ افغانستان اور انڈیا کی سرپرست عالمی قوتیں بھی پاکستان کو عدم استحکام کا شکار دیکھنے کی آرزو مند ہیں۔
اغیار کی ان سازشوں کے باوجود عوام کے تعاون اور سول اور ملٹری قیادت کے عزم کے سبب بڑی حد تک ہم دہشت گردی کے عفریت پر کسی حد تک قابو پانے میں کامیاب ہو گئے تھے اور وطن عزیز میں امن بحال ہونا شروع ہو چکا تھا۔ افغانستان سے امریکی انخلا اور ”دوست حکومت“ بننے کے بعد اس وقت وہاں طالبان کی حکومت ہے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت مول لے کر ہم نے جن کی حمایت کی اس موقع پر تو ہمارے اعتماد کا لیول ہر صورت بلند ہونا چاہیے تھا۔ تو اب افغانستان سے لیکن اس قسم کی خبریں کیوں آ رہی ہیں کہ وہاں کی جیلوں میں قید ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے افراد کو نہ صرف رہائی ملی بلکہ وہاں کی سرزمین بھی ہمارے خلاف استعمال کرنے کی اجازت حاصل ہو گئی۔ یہ کیسی دوست حکومت ہے جس نے ہمارے تمام دشمنوں کو جیلوں سے رہائی دے دی ہے اور ہم سے بھی اصرار ہورہا ہے کہ اپنے 80 ہزار بچوں کے قاتلوں کو بلامشروط معاف کردیا جائے۔
یہ بات مگر سمجھ سے باہر ہے کہ تحریک طالبان اس وقت اگر واقعی کمزور پوزیشن میں تھی اور افغانستان میں بھی ہماری دوست حکومت قائم ہوگئی تھی تو پھر آخر مذاکرات کی کیا جلدی تھی اور اتنی عجلت کا مظاہرہ کیوں کیا جا رہا تھا؟ یہ درست ہے کہ کوئی بھی ریاست ہمیشہ حالت جنگ میں نہیں رہ سکتی اور ہر جنگ کا اختتام مذاکرات پر ہی ہوتا ہے، تاہم یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ اس ٹی ٹی پی کی مذموم کارروائیوں کی قیمت کسی ایک ادارے یا طبقے نے نہیں بلکہ پوری قوم نے ادا کی ہے، لہذا کسی فرد کو یہ اجازت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ وہ ان قاتلوں کو دوبارہ ہماری سرزمین پر لا بٹھائے۔ غور طلب بات یہ ہونی چاہیے تھی کہ آج تک ٹی ٹی پی کے ساتھ جتنے معاہدے ہوئے، اس مہلت کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے پہلے سے زیادہ قوت حاصل کرلی تھی۔
معاہدے میں ایسی کیا ضمانت تھی جو ٹی ٹی پی کو دوبارہ اس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہونے سے روکتی؟ اس پہلو پر غور و فکر کے بغیر اس وقت کی عسکری و سیاسی قیادت نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کا معاہدہ کرلیا بلکہ ملک سے فرار ہونے والے شرپسندوں کو واپسی کا محفوظ راستہ بھی فراہم کر دیا گیا، جس کا نتیجہ آج سامنے ہے۔ پیشگی معذرت کرتے ہوئے صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ واقعتا اگر ملکی سلامتی عزیز ہے تو ایک واضح سیاسی و خارجی پالیسی تشکیل دی جائے اور ریاستی مناصب پر کوئی بھی ہو اس پالیسی کے تسلسل میں رکاوٹ نہیں آنا چاہیے۔