وہ اِسلامی ممالک جن سے اسرائیل تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے (علی ہلال)

اِس وقت جب اسرائیلی بمباری سے غزہ میں شہید ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 50 ہزار کا ہندسہ کراس کرچکی ہے اور اسرائیل جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے گزشتہ ہفتے ایک بار پھر غزہ پر جارحیت کا آغاز کرچکا ہے، وہیں اسرائیل کے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام کے حوالے سے کوششیں رکی نہیں ہیں۔
اسرائیل سات اکتوبر 2023ء سے غزہ کو ملیا میٹ کرنے کے بعد اب غزہ کے دو ملین انسانوں کی بے دخلی کے لیے سرگرم ہے، لیکن اسلامی ممالک بالعموم اور عرب بالخصوص اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کشی پر خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ اس خاموشی نے اسرائیل کے حوصلے بلند کردیے ہیں اور صہیونی ریاست پہلے سے کہیں زیادہ تیزی کے ساتھ اپنی سفارتی تنہائی دور کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ اسرائیلی میڈیا کے مطابق تل ابیب ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری مرتبہ صدر بننے سے اپنے ماضی کے رکے ہوئے منصوبے کو دوبارہ سے شروع کرنے کے لئے اقدامات شروع کرچکاہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے سابقہ دور میں ’معاہدہ ابراہیم‘ کے عنوان کے تحت چار عرب ممالک متحدہ عرب امارات ، بحرین، مراکش اور سوڈان نے اسرائیل کو تسلیم کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ عبرانی میڈیا نے اپنی رپورٹ میں کہاہے کہ اسلامی دنیا میں ایسے متعدد ممالک ہیں جن کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی، اقتصادی اور سیکورٹی تعلقات اور رابطے قائم ہوچکے ہیں اور اب ان کے تل ابیب کے ساتھ صرف سفیروں کے تبادلے کا رسمی اعلان باقی رہ گیاہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد اور وزارت خارجہ غزہ قتل عام کے ساتھ ساتھ واشنگٹن کے اعلی حکام کے ساتھ ایسے اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لئے معاملات طے کررہی ہیں، جنہوں نے ابھی تک غزہ میں اسرائیلی قتل عام پر علامتی مذمتی بیانات کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کی حکومتوں نے صرف عوام کو احتجاج کرنے کی اجازت دے کر اپنے مسلمان ہونے کا فرض پورا کرنے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔
اسرائیلی میڈیا نے کہاہے کہ ان ممالک میں سعودی عرب کا نام سرفہرست ہے۔ سعودی عرب کو اسلامی دنیا میں جو اہمیت حاصل ہے اُس کے پیش نظر ریاض تل ابیب تعلقات کے قیام سے دیگر اسلامی ممالک کے لئے بھی فیصلہ آسان ہو جائے گا۔ سعودی عرب کے ساتھ اسرائیلی اداروں نے انڈونیشیا کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں۔ دنیا کے سب سے بڑے اسلامی ملک ہونے کے ناطے انڈونیشیا اسرائیل کا اہم ہدف ہے جس کے ساتھ تعلقات کے لئے اب امریکی ادارے اسرائیل کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔ عبرانی میڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اسرائیل کے انڈونیشیا کے ساتھ متعدد تجارتی معاہدے ہوئے ہیں جن میں درآمد و برآمد شامل ہیں۔ اسرائیل انڈونیشیا سے خوردنی تیل ،جوتے اور کپڑے درآمد کررہاہے جبکہ انڈونیشیا اسرائیل سے ٹیکنالوجی خریدتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان متعدد معاہدوں کی بات ہوگئی ہے۔ انڈونیشیا سے اسرائیل کے امپورٹ ویلیو 77 ملین ڈالر ہے جبکہ ایکسپورٹ ویلیو 92 ملین ڈالر ہے۔ انڈونیشیا نے سال 2024ءمیں غزہ پر جارحیت کے دوران بھی اسرائیل سے تجارتی لین دین کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جس کا حجم صرف پہلے چوتھائی میں 66 ملین ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
باوجود اس کے کہ انڈونیشیا کے وزیرخارجہ نے کہاہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے جکارتہ پر دباو بڑھایا جارہا ہے۔ تاہم دوسری جانب انڈونیشیا کے اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات جاری ہیں۔ اسرائیلی اپوزیشن لیڈر ہائیر لبید نے بتایا کہ جن ممالک کے ساتھ ہم تعلقات بنانے جارہے ہیں ان میں انڈونیشیا بہت اہم ہے۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام میں انڈونیشیا کے یہودی بہت اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ان یہودیوں نے انڈونیشیا اسرائیل کونسل بھی قائم کردی ہے جس کے ارکان کی تعداد 4450 ہے۔ اس کونسل نے انڈونیشیا میں یہودی ہولوکاسٹ کے یادگار کے طور پر شمالی صوبہ سولاویز میں ایک میوزیم بھی قائم کیاہے۔
ملائشیا بھی ان ممالک کی فہرست کا حصہ ہے جن کے ساتھ اسرائیل کے تجارتی تعلقات ہیں۔ عرب خبررساں ادارے نے اسرائیلی میڈیا کے حوالے سے کہاہے کہ ملائشیا ویسے تو فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، اسرائیلی میڈیا کادعویٰ ہے کہ ملایشیا میں فلسطینی مزاحمت کاروں کو تربیت بھی دی جاتی ہے جبکہ ملائشیا نے اسرائیلی جہازوں کو اپنی پورٹس پر لنگر انداز ہونے پر پابندی بھی برقرار رکھی ہوئی ہے، لیکن اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ملائشیا سالانہ کئی ملین ڈالر کی مصنوعات اسرائیل بھیجتاہے۔ ملائشیا کی جانب سے اسرائیل کے لئے برآمد کی جانے والی اشیاءمیں مشینری، برقی آلات، کیمیائی مصنوعات، ربڑ، سبزیاں اور جڑی بوٹیاں شامل ہیں۔
اسرائیل جن اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے سرگرم ہے اُن میں عمان، بنگلادیش، مالدیپ، پاکستان، صومالیہ، الجزائر، لیبیا، چاڈ، نائیجر، موریطانیہ اور جزرالقمر (آئیوری کوسٹ) شامل ہیں۔