ہجرت کے دوسرے سال رمضان ہی میں بدر کی وہ فیصلہ کن اور تاریخی جنگ ہوئی، جس میں اُمت اسلامیہ کی تقدیر اور دعوتِ حق کے مستقبل کا فیصلہ ہوا، جس پر پوری نسل انسانی کی قسمت کا انحصار تھا۔ اس کے بعد سے آج تک مسلمانوں کو جتنی فتوحات اور کامیابی حاصل ہوئیں اور ان کی جتنی حکومتیں اور سلطنتیں قائم ہوئیں وہ سب اسی فتح مبین کی رہین منت ہیں جو بدر کے میدان میں اس مٹھی بھر جماعت کو حاصل ہوئی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اس جنگ کو ’یومُ الفرقان‘ (فیصلہ کن دن) قرار دیا ہے:” اگر تم خدا پر اور اس (کی نصرت) پر ایمان رکھتے ہو جو (حق و باطل میں) فرق کرنے کے دن (یعنی جنگ بدر میں) جس دن دونوں فوجوں میں مڈبھیڑ ہوگئی، اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل فرمائی۔“ (الانفال)
مختصر پس ِمنظر
اِس جنگ کا پس منظر یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ ابوسفیان شام سے قریش کے ایک بڑے تجارتی کارواں کو لے کر مکہ جارہا ہے، جس میں بڑا مال و اسباب ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب مسلمانوں اور مشرکوں میں معرکہ آرائی کا سلسلہ جاری تھا اور قریش نے اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت کے مقابلے راہِ حق میں رکاوٹیں ڈالنے اور مسلمانوں کے لیے مختلف قسم کی مشکلات پیدا کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ انہوں نے سارے مالی وسائل، سامانِ جنگ اور ضروری اسباب اس کے لئے وقف کر رکھے تھے اور ان کے جنگی دستے مدینے کی حدود اور چراگاہوں تک پہنچ جاتے تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی کہ ابو سفیان جو اسلام کا بدترین دشمن تھا، اتنے بڑے قافلے کے ساتھ آرہا ہے تو آپ علیہ السلام نے لوگوں کو آگے بڑھ کر اس کا سامنا کرنے کا حکم دیا، لیکن اس کا بہت زیادہ اہتمام اور فکر نہیں کی گئی، اس لیے کہ وہ بہرحال ایک تجارتی قافلہ تھا، کسی لشکر کی فوج کشی نہ تھی۔ ادھر ابوسفیان کو یہ خبر پہنچی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قافلے کے مقابلے کے لیے مدینہ سے روانہ ہوچکے ہیں تو اس نے فوراً اپنا قاصد مکہ بھیجا اور قریش سے فریاد کی کہ وہ اس کی مدد کریں اور مسلمانوں کو آگے بڑھنے سے روکیں۔ جب یہ فریاد اور پکار مکہ پہنچی تو قریش نے جنگ کی پوری تیاری شروع کردی اور بہت تیزی کے ساتھ ایک لشکر جرار لے کر مقابلے کے لئے روانہ ہوئے۔ ان کے سرداروں میں سے کوئی سردار باقی نہیں بچا جو اس میں شریک نہ ہوا ہو۔ انہوں نے اطراف کے تمام قبائل کو اس میں شریک کرلیا۔ قریش کی مختلف شاخوں کے آدمی اس میں شامل تھے اور بمشکل کوئی باقی تھا۔ یہ لشکر بڑی حمیت و نخوت، غیظ و غضب اور انتقامی جذبے کے ساتھ روانہ ہوا۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ہوئی کہ قریش کا یہ زبردست لشکر روانہ ہوچکا ہے تو آپ علیہ السلام نے اپنے اصحاب کرامؓ سے مشورہ فرمایا، لیکن اس وقت آپ کا روئے سخن انصار کی طرف تھا، اس لیے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی بات پر بیعت کی تھی کہ وہ مدینے میں آپ کی پوری حفاظت اور مدد کریں گے۔ جب آپ علیہ السلام نے مدینے سے روانگی کا قصد فرمایا تو آپ نے یہ معلوم کرنا چاہا کہ اس وقت انصار کیا سوچ رہے ہیں؟ سب سے پہلے مہاجرین نے اپنی بات کہی اور بہت اچھی طرح آپ علیہ السلام کو اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ مشورہ کیا۔ مہاجرین نے پھر آپ کی تائید کی، پھر جب تیسری بار آپ نے دریافت فرمایا تو انصار کو احساس ہوا کہ آپ کا روئے سخن انصار کی طرف ہے۔ چنانچہ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے فوراً اس کا جواب دیا اور عرض کیا کہ: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! شاید آپ کا روئے سخن ہم لوگوں کی طرف ہے اور آپ ہماری بات سننا چاہتے ہیں۔ یا رسول اللہ! شاید آپ کو یہ خیال ہورہا ہے کہ انصار نے صرف اپنے وطن اور اپنی سرزمین میں آپ علیہ السلام کی نصرت کا ذمہ لیا ہے، میں انصار کی طرف سے عرض کرتا ہوں اور ان کی جانب سے یہ بات کہہ رہا ہوں کہ آپ جہاں چاہیں روانہ ہوں، جس سے چاہیں تعلق فرمائیں اور جس سے چاہیں ختم کریں، ہمارے مال و دولت میں سے جتنا چاہیں لیں اور ہم کو جتنا پسند ہو عطا فرمائیں، اس لئے کہ آپ جو کچھ لیں گے وہ ہمیں اس سے کہیں زیادہ محبوب ہوگا جو آپ چھوڑیں گے۔ آپ کوئی حکم دیں گے تو ہماری رائے آپ کے تابع فرمان ہوگی۔ خدا کی قسم!اگر آپ چلنا شروع کریں، یہاں تک ’بروک غمدان‘ تک پہنچ جائیں تب بھی ہم آپ علیہ السلام کے ساتھ چلتے رہیں گے اور خدا کی قسم! اگر آپ اس سمندر میں داخل ہوجائیں گے تو ہم بھی آپ کے ساتھ اس میں کود جائیں گے۔
حضرت مقداد رضی اللہ عنہ نے کہا : ہم آپ سے ایسا نہ کہیں گے جیسا موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا: ”جاﺅ تم اور تمہارا رب، دونوں مل کر جنگ کرو، ہم یہاں بیٹھے رہیں گے۔“ ہم تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں لڑیں گے اور بائیں لڑیں گے۔ آپ کے سامنے آکر لڑیں گے اور آپ کے پیچھے لڑیں گے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ گفتگو سنی تو روئے انور خوشی سے دمکنے لگا اور آپ علیہ السلام کو اپنے صحابہ کرام ؓ کی زبان سے یہ الفاظ سن کر بڑی مسرت ہوئی۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا: چلو اور بشارت حاصل کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار
اِس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمعمولی اور بے مثال قائدانہ قابلیت (آپ کی ابدی و عالمگیر رسالت کے ساتھ جو اس سب کی بنیاد اور سرچشمہ الہام و ہدایت ہے) پوری آب و تاب کے ساتھ جلوہ ریز تھی۔ آپ علیہ السلام کی حکیمانہ صف بندی اور تنظیم، خطرات اور اچانک حملوں کے سدباب کی تدبیر، دشمن کی جنگی طاقت، اس کی نفری، اس کے پڑاﺅ اور مختلف دستوں کی تعیناتی کا صحیح اندازہ یہ وہ چیزیں ہیں جن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی غیرمعمولی جنگی عبقریت کا اندازہ ہوتا ہے اور اس کی ضروری تفصیلات سیرت کی کتابوں میں بیان کی گئی ہیں۔
جنگ کی تیاری
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک جگہ جو میدان جنگ کے سامنے ایک ٹیلے پر تھی، چھپر ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد آپ میدان میں تشریف لے گئے اور جگہ جگہ اپنے دست مبارک کے اشارے سے فرماتے رہے کہ اِن شاءاللہ یہاں فلاں آدمی مارا جائے گا، یہاں فلاں آدمی ہلاک ہوگا، اس جگہ فلاں شخص قتل کیا جائے گا۔ چنانچہ ایک جگہ بھی اس کے خلاف نہیں ہوا اور آپ علیہ السلام کا فرمانا حرف بحرف صحیح ثابت ہوا اور اس جگہ میں فرق نہیں پڑا، جو جگہ آپ علیہ السلام نے متعین فرمائی تھی۔ جب دونوں لشکر آمنے سامنے آکر کھڑے ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے اللہ! یہ قریش کے لوگ آج اپنے پورے غرور و تکبر کے ساتھ آئے ہیں، یہ تجھ سے جنگ پر آمادہ ہیں اور تیرے رسول کو جھوٹا ٹھہرارہے ہیں۔“ یہ جمعہ کی رات تھی اور رمضان کی سترہ تاریخ، صبح نمودار ہوئی تو قریش اپنے تمام جنگی دستوں کے ساتھ سامنے آچکے تھے اور دونوں فریق صف آرا تھے۔
بارگاہِ الٰہی میں آہ و زاری اور مناجات
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیں درست فرمائیں، پھر ’عریش‘ میں واپس تشریف لے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق ؓ بھی تھے۔ اس کے بعد آپ علیہ السلام نے اللہ کے حضور میں گریہ و زاری اور دعا و مناجات کا کوئی دقیقہ باقی نہیں چھوڑا۔ آپ خوب جانتے تھے کہ اگر آج مسلمانوں کی قسمت کا فیصلہ تعداد و قوت کے اُصول پر ہے تو نتیجہ معلوم ہے، یہ وہی نتیجہ ہے جو ایک طاقتور اور بڑی جماعت کے مقابلے میں کمزور اور قلیل التعداد جماعت کے ساتھ ہمیشہ پیش آتا ہے۔ آپ علیہ السلام نے جب ترازو کے دونوں پلڑوں پر نظر کی تو آپ کو مشرکین کا پلڑا کھلے طور پر بھاری نظر آیا۔ دونوں میں کوئی تناسب ہی نہ تھا۔ آپ نے مسلمانوں کے پلڑے پر وہ پاسَنگ رکھ دیا جس سے وہ اچانک بھاری ہوگیا۔ آپ علیہ السلام نے اس مالک الملک اور شہنشاہ برحق کے سامنے اپنی فریاد رکھی اور اس سے نصرت و حمایت کے طالب ہوئے، جس کے فیصلے اور حکم کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس چھوٹے اسلامی لشکر (جوہر قسم کے ساز و سامان سے محروم تھا) کے حق میں اللہ تعالیٰ سے سفارش فرمائی۔ آپ نے فرمایا: ”اے اللہ! اگر آج تونے اس مٹھی بھر جماعت کو فنا کردیا تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا“ ۔آپ بے خود وارفتہ ہوکر اللہ تعالیٰ سے دعا کررہے تھے اور یہ فرمارہے تھے کہ: اے اللہ! تونے مجھ سے جس چیز کا وعدہ کیا ہے وہ پورا فرما، اے اللہ! تیری مدد کی ضرورت ہے، آپ اپنے دونوں ہاتھ اٹھاکر دعا فرمارہے تھے، یہاں تک کہ آپ کی چادر شانہ¿ مبارک سے گر پڑی، حضرت ابوبکر ؓ آپ کو تسلی دے رہے تھے اطمینان دلارہے تھے ان سے آپ کی اتنی زیادہ گریہ و زاری اور بے تابی و بے قراری دیکھی نہیں جاتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چند پاکیزہ نفوس کے لئے اس نازک لمحے میں جن مختصر الفاظ کے ساتھ دعا کی اس میں آپ کا ناز و اعتماد، اضطراب و بے قراری، اطمینان قلب اور سکینت اور عجز و احتیاج کے تمام پہلو بیک وقت جلوہ گر تھے۔ یہ اس امت کا بہترین و صحیح تعارف، اقوام عالم میں اس کے اصل مقام و پیغام اور دنیا کے باز ار میں اس کی قیمت، افادیت اور ضرورت کی پوری وضاحت و تعین کے ساتھ نشاندہی تھی اور اس بات کا اظہار و اعلان تھا کہ یہ امت جس سرحد یا محاذ کی حفاظت پر مامور ہے وہ دعوت الیٰ اللہ اور اخلاص کے ساتھ اس کی عبادت اور کامل اطاعت کا محاذ ہے۔ اس فتح مبین نے (جس نے تمام اندازوں اور تجربات کو غلط ثابت کردکھایا) آپ علیہ السلام کے ان الفاظ پر ہمیشہ کے لئے مہر تصدیق ثبت کردی اور اس کا عملی ثبوت فراہم کردیا کہ یہ بات حرف بحرف درست تھی اور اس امت کی صحیح، سچی اور بولتی ہوئی تصویر یہی ہے۔
پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لشکر کے سامنے تشریف لائے اور ان کو خدا کے راستے میں جہاد و شہادت کا شوق دلایا۔ اسی درمیان میں عتبہ بن ربیعہ اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید سامنے آئے اور درمیان صف میں آکر کھڑے ہوئے اور مبارزت طلب کی۔ ان کے جواب میں انصار کے تین نوجوان نکلے ان کو دیکھ کر انہوں نے پوچھا، تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے کہا: ہم انصار میں سے ہیں۔ کہنے لگے: شریف لوگ ہو، لیکن ہمارے جوڑ کے نہیں ہو، ہمارے مقابلے کے لئے ہمارے چچازاد بھائیوں (قریش) میں سے کسی کو بھیجو۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عبیدہ بن الحارثؓ، حمزہؓ، علیؓ، تم تینوں ان کے مقابلے کے لئے جاﺅ۔ ان کو دیکھ کر انہوں نے کہا: ہاں! اب برابر کی جوڑی ہے۔ سب سے پہلے حضرت عبیدہؓ نے جن کی عمر اُن سب سے زیادہ تھی، عتبہ کو للکارا، حضرت حمزہؓ نے شیبہ کو دعوت مبارزت دی اور حضرت علیؓ نے ولید بن عتبہ سے دو دو ہاتھ کئے۔ حضرت حمزہؓ و حضرت علیؓ نے تو دیکھتے ہی دیکھتے ان دونوں کا کام تمام کردیا، حضرت عبیدہؓ اور عتبہ میں کچھ ہاتھ ہوئے لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہو پارہا تھا کہ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ اپنی تلواریں لے کر عتبہ پر حملہ آور ہوئے اور اس کا کام تمام کرکے حضرت عبیدہ ؓ کو زخمی حالت میں واپس لائے اور وہ شہادت سے سرخرو ہوئے۔
آغاز جنگ
اُسی وقت دونوں لشکر برسرپیکار ہوگئے اور ایک دوسرے سے بالکل قریب ہوکر جنگ ہونے لگی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ چلو بڑھو اُس جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین کے برابر ہے۔ عمیر بن الحمام انصاریؓ نے یہ جملہ سنا تو کہنے لگے کہ : یا رسول اللہ! وہ جنت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے؟ آپ نے فرمایا: ہاں! کہنے لگے: واہ، واہ! آپ نے فرمایا: یہ بات کیا کہہ رہے ہو؟ انہوں نے کہا: نہیں ،یا رسول اللہ!اور کوئی بات نہیں۔ یہ میں اس خیال سے کہہ رہا ہوں کہ شاید میری قسمت میں بھی یہ جنت ہو؟ آپ نے فرمایا: ہاں، ہاں تمہیں یہ جنت نصیب ہوگی۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے ترکش سے کچھ کھجوریں نکالیں اور کھانے لگے، پھر اچانک کہنے لگے کہ اگر میں نے ان کھجوروں کے ختم کرنے کا انتظار کیا تو بہت دیر لگادوں گا، اتنا جینے کی تاب نہیں۔ یہ کہہ کر جو کھجوریں رہ گئی تھیں پھینک دیں اور میدان جنگ میں کود پڑے اور شہادت پائی۔ یہ جنگ بدر کے پہلے شہید تھے۔
دوسری طرف مجاہدین اسلام صف بستہ اور سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح لشکر کفار کے مقابلے پر ڈٹے ہوئے تھے۔ صبر و عزیمت کے پیکر، دل یادِالٰہی میں مشغول اور زبانیں اس کے ذکر و تسبیح میں زمزمہ سنج۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھرپور طریقے پر جنگ میں حصہ لیا۔ آپ علیہ السلام دشمن سے سب سے زیادہ قریب تھے اور آپ سے زیادہ بہادر اور شجاع اس وقت کوئی دوسرا نظر نہ آتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتے بھیجے اور انہوں نے مشرکین کو تہس نہس کردیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ترجمہ: ”جب تمہارا پروردگار فرشتوں کو ارشاد فرماتا تھا کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، تم مومنوں کو تسلی دو کہ ثابت قدم رہیں، میں ابھی ابھی کافروں کے دلوں میں رعب اور ہیبت ڈالے دیتا ہوں تم بھی ان کے سر مار کر اُڑادو اور ان کا پور پور مار (کر توڑ) دو۔“ (الانفال)
فتح مبین
یہ جنگ مسلمانوں کی فتح مبین اور مشرکین و کفار کی ذلت آمیز شکست پر ختم ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”خدا کا شکر ہے جس نے اپنا وعدہ پورا کیا، اپنے بندے کی مدد فرمائی اور تنہا ساری ٹولیوں اور گروہوں کو شکست دی۔“ آپ نے حکم دیا کہ کفار کے سارے مقتولین اسی اندھے کنویں میں ڈال دیے جائیں جو وہاں تھا، وہ سب اس میں پھینک دیے گئے، آپ وہاں تشریف لے گئے اور اوپر کھڑے ہوکر فرمایا: ”اے کنویں والو! کیا تم کو تمہارے رب کا کہنا سچ نظر آیا؟ میں نے تو اپنے رب کا وعدہ بالکل حق پایا۔“
