جنین میں اذان پرپابندی،شمالی غزہ پر اسرائیلی حملہ،5فلسطینی شہید،درجنوں زخمی

غزہ/نیویارک/واشنگٹن:اسرائیلی فورسز نے جنین کے فلسطینیوں پر ایک اور ظلم کردیا،فورسز نے مسجدوں میں اذان پر پابندی لگا دی۔الجزیرہ کے مطابق مرکز اطلاعات فلسطین نے اطلاع دی ہے کہ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہونے کے باوجود اسرائیلی فورسز جنین پناہ گزین کیمپ کی مساجد کو اذان دینے سے روک رہی ہیں۔

جنین میں اسرائیلی آپریشن 21 جنوری کو غزہ میں جنگ بندی کے چند دن بعد شروع ہوا جس میں درجنوں افراد شہید ہو چکے ہیں،سیکڑوں گھر تباہ اور ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے ہیں۔ اس ہفتے کے شروع میں اسرائیلی فورسز نے نابلس شہر کی ایک تاریخی مسجد کو بھی آگ لگا دی تھی۔

وفا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ مغربی کنارے میں ہیبرون، البریح اور رام اللہ گورنریٹس میں اپنے تازہ ترین چھاپوں میں کم از کم 13 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ادھر غزہ کے علاقے خان یونس میں 6 بیکریوں نے ایندھن کی قلت کے باعث کام معطل کر دیا ہے کیوں کہ اسرائیل نے پٹی میں داخل ہونے والی تمام امداد پر اپنی ناکہ بندی جاری رکھی ہوئی ہے اور امدادی ٹرکوں کو داخل نہیں ہونے دیا جا رہا۔

ادھراسلامی تحریک مزاحمت حماس نے اس بات پر زور دیا ہے کہ وہ بلیک میلنگ اور جنگ کی دھمکیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتی۔ مذاکرات اور معاہدے کے عزم کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ بصورت دیگر یہ قیدیوں کو خطرے میں ڈال دے گی۔

حماس نے پیر کے روز ایک پریس بیان میں کہا کہ قابض حکومت کے سربراہ بنجمن نیتن یاہو خالصتاً ذاتی اور متعصبانہ وجوہات کی بناء پر معاہدے پر عمل درآمد میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے۔ انہیں آخری بات قیدیوں کی رہائی اور ان کے اہل خانہ کے جذبات کا خیال ہے۔

حماس نے جنگ بندی کے معاہدے اور جس پر اتفاق کیا گیا تھا اس پر عمل درآمد کے لیے اپنی مکمل وابستگی پر زور دیا اور دوسرے مرحلے کے لیے فوری طور پر مذاکرات شروع کرنے کے لیے اپنی تیاری کا اعلان کیا۔حماس نے نشاندہی کی کہ قابض ریاست نے معاہدے کو الٹ دیا ہے۔

نیتن یاھو دوسرا مرحلہ شروع کرنے میں رکاوٹیں ڈال رہا ہے اور وہ دانستہ طور پر جنگ بندی معاہدے کے مذاکرات کو تاخیر کا شکارکررہا ہے۔حماس نے کہا کہ یہ معاہدہ ثالثوں کی طرف سے اسپانسر کیا گیا تھا اور دنیا نے اس کی گواہی دی تھی۔ یہ معاہدہ ہی اسرائیلی قیدیوں کی باعزت واپسی کا واحد راستہ ہے۔

حماس نے دباؤ ڈالنے کی کوششوں کو مسترد کر دیاجب کہ قابض اسرائیل کو اپنی ذمہ داریوں سے بچنے کے باوجود احتساب کے بغیر چھوڑ دیا گیاجبکہ حماس نے اسرائیل کے غزہ کی بجلی بند کرنے کے فیصلے کو ناقابل قبول دبائوقرار دیا ہے۔ اسرائیلی حکومت نے یہ اقدام فلسطینی مزاحمت کاروں پر دبائو ڈالنے اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے کیا ہے۔

حماس کے سیاسی دفتر کے رکن عزت الرشق نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم اسرائیل کے اس فیصلے کی شدید مذمت کرتے ہیں جس کے تحت غزہ کو پہلے ہی خوراک، ادویات اور پانی سے محروم کر دیا گیا ہے۔اقوام متحدہ کی خصوصی نمائندہ برائے مقبوضہ فلسطینی علاقوں فرانسیسکا البانیزے نے اسرائیلی فیصلے پر سخت ردعمل کا اظہار کیا۔

انہوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ”ایکس” پرنسل کشی کا انتباہ لکھتے ہوئے کہا کہ بجلی کی بندش کے نتیجے میں صاف پانی کی دستیابی بھی ممکن نہیں رہے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ وہ ممالک جو اسرائیل پر پابندیاں یا اسلحے کی ترسیل پر پابندی عائد نہیں کر رہے وہ اس تاریخی اور قابلِ روک تھام نسل کشی میں اسرائیل کی مدد کر رہے ہیں۔

بجلی کی بندش کے بعد غزہ میں پانی صاف کرنے والے پلانٹس بھی کام نہیں کر سکیں گے، جس سے لاکھوں فلسطینیوں کو پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس اقدام کو جنگی جرم اوراجتماعی سزاقرار دیا ہے۔

دریں اثناء جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل نے شمالی غزہ پر حملہ کردیا، شجاعیہ کے علاقے میں اسرائیلی حملے میں5فلسطینی شہید اور متعدد زخمی ہوگئے۔اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ اسرائیلی فوجیوں پر حملہ کرنے والے متعدد افراد کو نشانہ بنایا گیا۔

اسرائیلی شہر حیفا میں یرغمالیوں کے اہل خانہ اور شہریوں نے شدید احتجاج کیا۔مظاہرین نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ جلد شروع کرنے کا مطالبہ کیا جبکہ وزارت صحت غزہ نے بتایا ہے کہ پچھلے 24 گھنٹوں کے دوران مزید پانچ فلسطینی اسرائیل کے حملوں کے دوران شہید ہوئے ہیں جبکہ 37 فلسطینی اسرائیلی بمباری کے واقعات میں زخمی ہوئے ہیں۔

وزارت صحت کے جاری کردہ بیان کے مطابق سات اکتوبر سے اب تک اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 48458 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ ان میں بڑی تعداد فلسطینی عورتوں اور بچوں کی ہے۔بیان میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے دوران 111897 فلسطینی زخمی ہوئے ہیں جبکہ غزہ میں اسرائیلی بمباری سے تباہ ہونے والے گھروں کے ملبے کے نیچے موجود فلسطینی شہداء کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔

قابض اسرائیلی فوج کی طرف سے فلسطینی نمازیوں کی مسجد اقصیٰ میں داخلے اور وہاں پر عبادت پر عائد غیر انسانی پابندیوں کے باجود ہزاروں فلسطینیوں نے گذشتہ شب مسجد اقصیٰ میں عشاء اور تراویح کی نماز ادا کی۔اتوار کی شام تقریباً60 ہزار فلسطینیوں نے اسرائیلی قابض حکام کی طرف سے عائد پابندیوں کے باوجود بابرکت مسجد الاقصیٰ میں عشاء اور نماز تراویح ادا کی۔

القدس میں اسلامی اوقاف کے محکمے نے کہا کہ قابض فوج نے متعدد نوجوانوں کو مسجد اقصیٰ میں نماز ادا کرنے کے لیے داخل ہونے سے روک دیا جب کہ مسلسل مسجد اقصیٰ اور اس کے اطراف میں پابندیاں سخت کی گئی ہیں۔ قابض فوج کی طرف سے مقبوضہ بیت المقدس، غرب اردن سے آنے والے فلسطینیوں اور مقبوضہ شمالی فلسطین کے فلسطینی مسلمانوں کو بھی قبلہ اول تک رسائی سے روک رکھا ہے۔ اس کے باوجود پابندیاں توڑ کر فلسطینی قبلہ اول میں پہنچنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

علاوہ ازیں امیگریشن حکام نے کولمبیا یونیورسٹی مظاہرے کی قیادت کرنیوالے طالبعلم کو گرفتار کرلیا، گرفتار طالبعلم کا گرین کارڈ منسوخ کیا جارہا ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اسرائیل مخالف مظاہروں میں ملوث طلبہ کیخلاف گھیرا تنگ کر دیاہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی کی چار سو ملین ڈالر کی فنڈنگ پہلے ہی بند کر دی تھی۔امریکی میڈیا نے بتایا کہ گرفتار طالبعلم محمود خلیل کے پاس گرین کارڈ ہے جس کو محکمہ خارجہ کی ہدایت پر منسوخ کیا جا رہا ہے۔گرفتار طالب علم محمود خلیل کو نیوجرسی کے امیگریشن حراستی مرکزمیں رکھا گیا ہے۔

شام میں پیدا ہونے والے محمود خلیل کے وکلا نے امیگریشن حکام کیخلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔طالب علم کی رہائی کیلئے آج نیویارک اور نیو جرسی میں طلبہ تنظیموں نے مظاہروں کا اعلان کیا ہے جبکہ امریکی وزیر خارجہ مارکوروبیو نے کہا ہے کہ امریکا حماس کے حامیوں کے ویزے اور گرین کارڈ منسوخ کرے گا۔

امریکی وزیر خارجہ ماکوروبیو نے کہا کہ حماس کے سپورٹرز کو امریکا سے ڈی پورٹ کیا جائے گا۔امریکی صدر کے غزہ کے یرغمالیوں کے حوالے سے خصوصی ایلچی ایڈم بوہلر نے کہا ہے کہ غزہ میں یرغمالیوں سے متعلق معاہدہ چند ہفتوں میں ممکن ہے۔

غیر ملکی میڈیا کے مطابق ایڈم بوہلر نے کہا کہ حماس کیساتھ براہ راست ملاقات بہت مددگار رہی ہے۔انہوںنے کہاکہ امریکا حماس بات چیت پر اسرائیل کی تشویش کو سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یقین ہے کہ یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ ہفتوں میں طے پا جائے گا، یہ ایسا معاہدہ ہو گا جس کے تحت امریکی ہی نہیں تمام قیدی رہا ہو سکیں گے۔