فلسطین میں ظلم وجبر فوری روکنا ہوگا،پاکستان

جدہ / اسلام آبا د/غزہ/واشنگٹن/نیویارک:وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے غزہ کی صورتحال پر مسلم امہ کو یکجا مؤقف اپنانے کا مشورہ دیتے ہوئے مستقل جنگ بندی کے لیے پاکستان کی تجاویز پیش کر دیں۔او آئی سی وزرائے خارجہ کونسل کے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہاکہ غزہ میں عورتوں اور بچوں سمیت 48 ہزار فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں۔

غزہ کا بنیادی ڈھانچہ تباہ ہو چکا ہے، عبادت گاہیں، اسکول، ہسپتال اور تجارتی مراکز ملبہ بن چکے ہیں، فلسطین کی موجودہ صورتحال مسلم دنیا کی فوری ردعمل کی طلب گار ہے۔انہوںنے کہاکہ پاکستان جنگ بندی کے اقدام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے، غیر یقینی صورتحال کا خاتمہ صرف مستقل امن سے ممکن ہے، غزہ میں انسانی امداد ایک بار پھر روکی جا چکی ہے۔

رمضان المبارک میں اس طرح کا ظلم شدید مذمت کے قابل ہے، امداد کی ترسیل کو روکنا جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے، غزہ کے عوام کی بقا امداد کی ترسیل سے ہی ممکن ہے۔وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہاکہ جنگ کے دوبارہ آغاز اور جبر کے لیے اسرائیلی خواہش کو متحد ہو کر روکنا ہو گا۔

مغربی پٹی پر اسرائیلی اقدامات جاری رہنے تک امن کا اقیام ممکن نہیں، مقبوضہ فلسطین میں ظلم و جبر اور ناانصافیوں کو فوری روکنا ہوگا، مسلم امہ واضح کرے کہ فلسطینیوں کو غزہ یا مغربی پٹی سے بے گھر کرنا نسل کشی ہے، فلسطینی عوام کو اپنے علاقوں سے نکالنا نسل کشی کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم ہر اس تجویز کو رد کرے جو فلسطینی کو بے گھر کرنے کیلئے ہو، او آئی سی کسی بھی ایسے ایجنڈے کیلئے متحد ہوجائے۔انہوںنے کہاکہ سعودی عرب میں فلسطینی ریاست کیلئے اسرائیلی وزیر اعظم کی اشتعال انگیز تجویز قابل مذمت ہے۔

پاکستان سعودی عرب کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کرتا ہے، مسلم امہ کے لیے ایک فیصلہ کن لمحہ ہے، فلسطینی عوام ہمدردی کے بیانات نہیں بلکہ مضبوط اقدامات چاہتے ہیں، ہم اپنے الفاظ نہیں بلکہ اقدامات سے پہچانے جائیں گے۔

اسحاق ڈار نے پاکستان کی جانب سے اجلاس میں تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ 3 نکاتی جنگ بندی معاہدے پر فوری عملدرآمد کیا جائے، جنگ کا مستقل خاتمہ ممکن بنایا جائے اور انسانی امداد کی ترسیل اور تعمیر نو کا جامع منصوبہ فوری یقینی بنایا جائے۔

وزیر خارجہ نے یہ تجویز دی کہ غزہ سے اسرائیلی فوج کا مکمل انخلا ممکن بنایا جائے، مغربی پٹی میں اسرائیلی جارحیت فوری ختم کی جائے، فلسطینیوں کو فوری اور بغیر رکاوٹ انسانی امداد یقینی بنائی جائے، فلسطینیوں کو جبری بے گھر کرنا سرخ لکیر گردانا جائے۔

دریں اثناء اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) وزرائے خارجہ کے غیرمعمولی اجلاس میں تنظیم کے رکن ممالک نے فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت، جبری نقل مکانی اور ان کی سرزمین پر الحاق کے منصوبوں پر گفتگو کی ،وزرائے خارجہ نے متفقہ طور پر عرب منصوبے کے تحت غزہ کی تعمیر نو کی حمایت کی اور فلسطینی عوام کو جبراً غزہ سے بے دخل کرنے کے کسی بھی بیان کو مسترد کر دیا۔

اس موقع پر او آئی سی کے سیکرٹری جنرل حسین ابراہیم طحہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تنظیم عرب لیگ کے غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کی مکمل حمایت کرتی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ فلسطینی عوام کو اپنی سرزمین پر رہنے کا نہ صرف مکمل حق حاصل ہے بلکہ انہیں ایک خودمختار ریاست کے طور پر عالمی سطح پر اپنا کردار ادا کرنے کا بھی حق ہے۔

حسین ابراہیم طحہ نے اسرائیل کی جانب سے بیت المقدس کی بے حرمتی، فلسطینی نوجوانوں کی گرفتاریوں اور شہادت جیسے جرائم کی سخت مذمت کی۔ انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیلی مظالم کو روکنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات کرے۔

اجلاس میں رکن ممالک نے فلسطینی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور اسرائیلی جارحیت کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ فلسطینی عوام کے حقوق کے تحفظ کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات کرے۔

دوسری جانب حماس کے دو سینئر عہدیداروں نے بتایا ہے کہ حماس کا ایک اعلی سطحی وفد غزہ میں ایک نازک جنگ بندی کو مزید جاری رکھنے کی کوششوں کو آگے بڑھانے کے لیے قاہرہ میں ہے۔عرب ٹی وی کے مطابق ایک اہلکار نے بتایاکہ یہ وفد مصری حکام سے ملاقات کرے گا تاکہ تازہ ترین پیش رفت پر تبادلہ خیال، جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد میں پیش رفت کا جائزہ لینا اور معاہدے کے دوسرے مرحلے کے آغاز سے متعلق معاملات کو حل کرنا ممکن ہو۔

انہوں نے کہا کہ مصری ثالثین کے ساتھ مذاکرات کے دوران حماس کا وفد مطالبہ کرے گا کہ اسرائیل معاہدے پر عمل درآمد، دوسرے مرحلے کے لیے مذاکرات شروع کرے اور غزہ کی پٹی میں انسانی امداد کو ممکن بنانے کے لیے سرحدی گذرگاہیں کھولے۔

دوسرے اہلکار نے کہاکہ فلسطینی مزاحمتی گروپ ایک مستقل اور مکمل جنگ بندی کو یقینی بنانے والے جامع معاہدے کا خواہاں ہے۔انہوں نے کہاکہ دوسرے مرحلے کے لیے حماس کے مطالبات میں غزہ سے مکمل اسرائیلی انخلا، ناکہ بندی کا خاتمہ، علاقے کی تعمیرِ نو اور قاہرہ میں رواں ہفتے ہونے والے عرب سربراہی اجلاس کے فیصلوں کی بنیاد پر مالی معاونت شامل ہے۔

ادھریمن کے حوثیوں نے اسرائیل کو غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنے کیلئے 4 دن کی مہلت دے دی۔ غزہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے کا اختتام گزشتہ ہفتے کو ہوا تھا جس کے بعد اسرائیل نے جنگ بندی میں عارضی توسیع کا یکطرفہ اعلان اس شرط پر کیا تھا کہ حماس جنگ بندی کا دوسرا مرحلہ شروع کیے بغیر مزید یرغمالی رہا کرے تاہم حماس کی جانب سے انکار پر اسرائیل نے غزہ میں کھانے پینے سمیت ہر قسم کے سامان کا داخلہ روک دیا۔

غزہ کی پٹی میں تمام امدادی سامان کی ترسیل کو رکے ہوئے 6 دن ہو چکے ہیںاب یمن کے حوثیوں کے رہنما عبدالملک الحوثی نے دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے4 دن کے اندر غزہ میں امداد کا داخلہ نہ کھولا تو وہ اسرائیل کے خلاف اپنی بحری کارروائیاں دوبارہ شروع کر دیں گے۔

قبل ازیںامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور حماس کے درمیان خفیہ مذاکرات پر اسرائیل کی شدید تشویش سامنے آئی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو کے قریبی ساتھی اور امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ کے درمیان ایک سخت گفتگو ہوئی، جس میں اسرائیل نے ان مذاکرات پر شدید اعتراض کیا۔

امریکی میڈیا نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ ٹرمپ کے مشیروں نے فروری کے اوائل میں اسرائیلی حکام سے حماس سے براہ راست رابطے کے امکان پر بات کی تھی جس پر اسرائیل نے انہیں ایسا کرنے سے منع کیا تھا، خاص طور پر بغیر کسی شرط کے۔ تاہم اسرائیل کو بعد میں معلوم ہوا کہ امریکا ان مذاکرات کو آگے بڑھارہا ہے۔

امریکی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ایڈم بوہلر نے دوحہ میں حماس کے سینئر رہنما خلیل الحی سے ملاقات کی۔ ان مذاکرات کا بنیادی مقصد امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر اور چار دیگر امریکیوں کی باقیات کی واپسی تھا۔ تاہم امریکا کی جانب سے عندیہ دیا گیا کہ اگر یہ معاہدہ طے پاتا ہے تو ٹرمپ اسرائیل پر مزید دبا ئوڈال سکتے ہیں، جس میں طویل مدتی جنگ بندی، حماس قیادت کے لیے محفوظ راستہ اور تمام یرغمالیوں کی رہائی شامل ہو سکتی ہے۔

اسرائیل نے ان مذاکرات میں فلسطینی قیدیوں کی رہائی جیسے نکات پر بھی اعتراض کیا، کیونکہ ان امور پر اس کی پیشگی منظوری نہیں لی گئی تھی۔ نیتن یاہو نے ابتدا میں ان مذاکرات کو سنجیدگی سے نہیں لیا تھا، لیکن جب انہیں حقیقت کا روپ دھارتے دیکھا تو ان کی تشویش میں اضافہ ہوا۔

ٹرمپ اور ان کے مشیروں نے بدھ کو ایک طویل اجلاس میں ان مذاکرات پر بات کی اور فیصلہ کیا کہ حماس پر دبائو بڑھانے کے لیے ایک سخت عوامی بیان جاری کیا جائے۔ بعد ازاں، ٹرمپ نے ایک بیان میں حماس کو آخری وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ تمام یرغمالیوں کو فوری رہا کیا جائے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے کولمبیا یونیورسٹی کی چارسو ملین وفاقی گرانٹ منسوخ کردی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یونیورسٹی پر یہودی طالبعلموں کو ہراساں کرنے کا الزام ہے،کولمبیا یونیورسٹی میں فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے ہوئے تھے جو امریکا کی مختلف جامعات میں پھیل گئے تھے،احتجاج کے باعث ہارورڈ اور پنسلوینیا یونیورسٹی کے سربراہان کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔

اقوامِ متحدہ کے ایک اہلکار نے بتایاہے کہ اسرائیل کا کئی ہفتوں سے جاری ایک بڑا حملہ جس میں دسیوں ہزار فلسطینی بے گھر اور پناہ گزینوں کے کیمپ تیزی سے تباہ ہو گئے ہیں، مغربی کنارے کے الحاق کے نظریے سے ہم آہنگ لگتا ہے۔

میڈیارپورٹس کے مطابق فلسطینی پناہ گزینوں کی حمایت کرنے والی اقوامِ متحدہ کی ایجنسی انروا میں مغربی کنارے کے ڈائریکٹر رولینڈ فریڈرک نے کہا اس بات کے خدشات بڑھ رہے ہیں کہ موجودہ حقیقت مغربی کنارے کے الحاق کے وژن سے مطابقت رکھتی ہے۔

انسانی ہمدردی اور وسیع تر سیاسی نکتہ نظر سے یہ ایک بے مثال صورتِ حال ہے۔فریڈرک نے کہاکہ ہم شمال مغربی کنارے کے 40,000 لوگوں کی بات کرتے ہیں جو اپنے گھروں سے مجبوراً بے گھر ہوئے ہیں۔بنیادی طور پر تین پناہ گزین کیمپوں سے جہاں کارروائی شروع ہوئی تھی۔

یہ کیمپ اب زیادہ تر خالی ہیں جن کے رہائشی واپس نہیں جا سکتے اور کہیں اور پناہ تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔فریڈرک نے مزید کہا کہ کیمپوں کے اندر بجلی، سیوریج اور پانی بلکہ نجی مکانات کی تباہی کی سطح انتہائی تشویشناک تھی۔

ادھرحماس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیاہے کہ وہ غزہ میں جاری جنگ بندی کے دوران رہا کردہ فلسطینی قیدیوں سے ملاقات کریں۔ یہ مطالبہ ایک روز قبل رہا کردہ اسرائیلی یرغمالیوں سے ان کی ملاقات کے بعد سامنے آیا ۔

میڈیارپورٹس کے مطابق حماس کے سینئر رہنما باسم نعیم نے ٹرمپ کے نام ایک کھلے خط میں لکھا جس طرح انہوں نے اسرائیلی قیدیوں کے ناقابلِ برداشت مصائب کے بارے میں بات کی تو امریکی صدر کو آزاد فلسطینی سیاسی قیدیوں کے لیے اسی سطح کے احترام کا مظاہرہ اور ان سے ملنے اور ان کی کہانیاں سننے کے لیے وقت مختص کرنا چاہیے۔انہوں نے کہاکہ اس وقت 9,500 سے زائد فلسطینی قیدی اسرائیلی جیلوں میں قید ہیں۔