قاہرہ:عرب رہنماوں نے غزہ کی تعمیر نو سے متعلق ٹرمپ کے منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے مصر کے منصوبے کو منظور کرلیا۔
حتمی فارمولے تک پہنچنے کے لیے ہنگامی عرب سربراہ اجلاس مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں شروع ہوا۔ اس موقع پر غزہ سے متعلق مصری منصوبہ عرب رہنمائوں کو پیش کیاگیا۔
مصر کی جانب سے غزہ کے حوالے سے پیش کیے گئے 53 ارب ڈالر کے مجوزہ 5 سالہ منصوبے میں لاکھوں گھر، تجارتی بندرگاہ اور ایئرپورٹ کی تعمیر شامل ہے۔مصر کے منصوبے میں فلسطینی علاقوں میں انتخابات اور دو ریاستی حل کی کوششیں بھی شامل ہیں۔اجلاس میں عرب رہنماوں نے ٹرسٹ فنڈ قائم کرنے پر بھی اتفاق کیا جو کہ غزہ کی تعمیر نو کے لیے مالی معاونت کرے گا، عرب رہنماوں نے تعمیر نو کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بین الاقوامی تعاون پر بھی زور دیا۔
اجلاس سے خطاب میں فلسطینی صدر محمود عباس نے غزہ کی تعمیر نو کے مصری منصوبے کا خیرمقدم کیا۔فلسطینی تنظیم حماس نے عرب ممالک کے غزہ کی تعمیر نو کے منصوبے کا خیر مقدم کیا ہے، جب کہ اسرائیل نے اسے مسترد کر دیا۔
عرب منصوبے پر ردعمل دیتے ہوئے وائٹ ہاؤس نے واضح کیا کہ امریکی صدر جوبائیڈن غزہ کی تعمیر نو کے لیے حماس کو شامل نہ کرنے کے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے قابض اسرائیلی حکام کی جانب سے غزہ کی پٹی میں 20 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو مسلسل چوتھے روز خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر امدادی رسد کی بندش کو ”بھوک مسلط کرنے کی مجرمانہ پالیسی” قرار دیا۔
آئی او ایم کے علاقائی بحران کے کوآرڈینیٹر کارل بیکر نے کہا کہ تنظیم کے پاس اب اردن میں اس کے گوداموں میں 22,500 خیمے ہیں، مگر امداد کی سپلائی معطل کیے جانے کے بعد انہیں غزہ لانے میں رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔
بین الاقوامی ریسکیو کمیٹی میں ایمرجنسیز اور ہیومینٹیرین ایکشن کے نائب صدر باب کچن نے کہا کہ تنظیم کے پاس اس وقت 6.7 ٹن ادویات اور طبی سامان غزہ میں داخل ہونے کا انتظار ہے۔
فلسطینی میڈیکل ریلیف آرگنائزیشن نے کہا کہ اس کیامداد ی سامان سے لدیٹرک سرحد پر پھنس گئے ہیں جو معذوروں کے لیے ادویات، گدے اور معاون آلات لے کر جا رہے ہیں۔ان کے پاس اتنا ذخیرہ نہیں ہے کہ وہ امداد دوبارہ شروع کیے بغیر طویل عرصے تک ضروریات کو پورا کر سکے۔
اقوام متحدہ کی فوڈ ایجنسی کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے خوراک، ایندھن، ادویات اور دیگر سامان کے داخلے پر روک لگانے کے بعد غزہ کی پٹی میں عوامی کچن اور بیکریوں کے پاس دو ہفتوں سے بھی کم عرصے کے لیے خوراک کا سامان رہ گیا۔
اقوام متحدہ کے ترجمان سٹیفن دوجارک نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی جانب سے غزہ کی پٹی میں سامان کی آمدورفت کی بندش سے پوری پٹی میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں 100 گنا سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔
