اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے یوٹرن لیتے ہوئے حماس کی جانب سے رہا کیے جانے والے 6 یرغمالیوں کے بدلے فلسطینی قیدیوں کی طے شدہ رہائی موخر کر دی ہے۔
گزشتہ دنوں حماس نے جنگ بندی معاہدے کے تحت 6 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا تھا جس کے بدلے اسرائیل کو بھی 600 سے زائد فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنا تھا، مگر اب اسرائیلی وزیراعظم نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو موخر کردیا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم آفس کی جانب سے جاری بیان میں الزام لگایا گیا کہ حماس کی طرف سے ہمارے قیدیوں کی عزت کو مجروح کرنے والی تقریبات اور پراپیگنڈے کے لیے ان کا سیاسی استعمال فلسطینی قیدیوں کی رہائی کو موخر کرنے کی وجہ ہے۔
نیتن یاہو نے اپنے بیان میں مزیدکہا کہ فلسطینی قیدیوں کی رہائی اس وقت تک موخر کی ہے جب تک ہمارے اگلے قیدیوں کی رہائی عزت کو مجروح کرنے والی تقریبات کے بغیر نہیں ہوتی۔
اسی دوران وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو نے ایک بار پھر دھمکی دی ہے کہ اسرائیل غزہ کی پٹی میں “کسی بھی لمحے” جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہے۔
نیتن یاہوکا کہنا تھا کہ اسرائیل اپنے جنگی اہداف کو “چاہے مذاکرات کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے” حاصل کرے گا۔غزہ میں ہم نے حماس کی زیادہ تر منظم قوتوں کو ختم کر دیا ہے، لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اپنے جنگی مقاصد کو مکمل طور پر پورا کریں گے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نیتن یاہو کا یہ بیان خطے میں کشیدگی میں مزید اضافے کا باعث بن سکتا ہے، جبکہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے مستقل جنگ بندی کی کوششیں جاری ہیں۔
بعد ازاں حماس نے سینکڑوں فلسطینی قیدیوں کی رہائی میں اسرائیل کی جانب سے تاخیر کو غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔
غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق حماس کے ترجمان عبداللطیف القانو ع نے ایک بیان میں کہا کہ “مقررہ تاریخ پر قیدیوں کے تبادلے کے عمل میں قیدیوں کی ساتویں کھیپ کو رہا کرنے میں قابض ریاست کی ناکامی معاہدے کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو پر “تاخیر اور تعطل کے ذمہ دار ہیں۔