کشمیر بنے گا پاکستان (ندیم تابانی)

فرانس میں پاکستانی سفیر ممتاز زہرا بلوچ نے ہندوستان سے کہا ہے 5اگست 2019 ء اور اس کے بعد کیے گئے تمام غیر قانونی اقدامات واپس لے۔ یاد رہے ان کا یہ کہنا ہے اس موقع پر تھا جب وہ 5 فروری کو یومِ یکجہتی کشمیر کی تقریب سے خطاب کر رہی تھیں۔ کشمیر کا معاملہ بہ ظاہر یوم کشمیر یا یکجہتی کشمیر تک رہ گیا ہے۔

مودی نے اپنے آئین کی شق 370اڑائی، ہندوستانی عدالت عظمیٰ نے اس پر مہر لگا دی۔ ہم کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دے رہے تھے اور ہندوستان اسے اٹوٹ انگ کہہ رہا تھا، مستقبل میں کیا ہوگا یہ تو پتا نہیں لیکن اٹوٹ انگ کہنے والے نے آئینی طور پر بھی قبضہ پکا کر لیا ہے۔ ہم یقینا آج بھی شہ رگ کہتے اور سمجھتے ہوں گے لیکن مسٹر مودی کے موڈ پر اس کا کوئی اثر نہیں ہورہا اور ہم دنیا کو یہ باور کروانے میں پہلے بھی ناکام تھے اور آج بھی ناکام ہیں کہ کشمیر پر ہندوستانی قبضہ ظالمانہ اور غاصبانہ ہے۔ محسوس کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی حکومت، مذہبی، سیاسی جماعتیں بھی اب کشمیر کا نام ذرا رسمی انداز میں لیتی ہیں۔ وہ پہلے والا جوش جذبہ اب نظر نہیں آتا اور قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کا بھی اب کوئی اتا پتا نہیں۔ کچھ بھی ہو 5فروری کی عام تعطیل پکی ہے۔ قوم ستو پیے بغیر بھی پورے سکون سے سو سکتی ہے۔ کشمیر کس کا ہے اور کس کے پاس ہے یہ نعرہ ہمارا ہی ہے: کشمیر بنے گا پاکستان !
٭٭٭
ٹرمپ کی جیت میں حصہ لینے اور اس کے لیے دعائیں کرنے والے اسے اپنا خیر خواہ سمجھنے والے بلکہ دیدہ و دل فرش راہ کرنے والے جذباتی مسلمانوں کے لیے خبر یہ ہے کہ ٹرمپ نے اسرائیل کو روکے اسلحے کا اجرا کردیا ہے۔ غزہ پر بغیر جنگ کے قبضے کا امریکی پروگرام جاری و ساری ہے۔ ٹرمپ کو عرب ممالک خصوصاً سعودیہ سے بڑی امیدیں ہیں۔ اسے قطر سے، مصر سے، اُردن اور لبنان سے بھی بڑی امیدیں ہیں۔ ٹرمپ نے اسرائیلی وزیراعظم کو اپنی بغل میں بٹھا کر جو باتیں کی ہیں ان پر ہم دانت پیس سکتے ہیں۔ لیکن اس دانت پیسنے سے فی الحال ٹرمپ یا نیتن یاہو پر کوئی فرق نہیں پڑ رہا۔ عرب ممالک خصوصاً سعودیہ اور قطر اہلِ فلسطین کے لیے کیا اور کتنا کام کرتے ہیں۔ غزہ کی تعمیر، زخمیوں کے علاج کے لیے کیا کرتے ہیں اور سب سے بڑھ کے مسجد اقصیٰ کی حفاظت اور اس کے اصل محافظوں کا دست و بازو بننے کا جذبہ کس میں ہے۔ ٹرمپ کی عرب ممالک خصوصاً سعودیہ اور محمد بن سلمان کے وژن 2030ء سے جو بھی امیدیں ہوں لیکن تاحال سعودیہ اپنا یہی موقف بار بار دُہرا رہا ہے کہ فلسطینی ریاست قائم کیے اور اسے عالمی سطح پر تسلیم کیے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ٹرمپ کو پاکستان سے محمد بن سلمان کی معرفت بہہہہت سی اُمیدیں ہیں ۔ عام خیال یہ کیا جاتا ہے کہ پاکستا ن اور سعودیہ کا ایک ہی موقف ہوگا۔
٭٭٭
ہمارے پیارے سے بڑے خان صاحب نے چیف جسٹس آف پاکستان کی تقرری کو مسترد کر دیا تھا، لیکن پھر یوٹرن لے کر انھیں ایک خط لکھا اور انھیں بتایا کہ ان کے فرائض کیا کیا ہیں اور انھیں کیا کرنا چاہیے، خاص طور پر اپنے اور اپنی پارٹی کے لیے انھوں نے کچھ مطالبات کیے، جواب نہیں آیا۔ سنا ہے موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان ویسے بھی خطوط کا جواب نہیں دیتے، ان کے ساتھی جج بھی خط پہ خط لکھے جا رہے ہیں۔ پتا نہیں یہ خط چیف صاحب کو ملتے بھی ہیں یا نہیں اور اگر ملتے ہیں تو چیف صاحب انھیں پڑھتے بھی ہیں یا نہیں۔ خیر جب خان صاحب کی امید پوری نہیں ہوئی تو گزشتہ دنوں انھوں نے سپہ سالار کو خط لکھ مارا۔ ویسے خط کی حقیقت کچھ اہم واقفانِ حال کے مطابق ایسی نہیں کہ باقاعدہ کسی کاغذ پر خط لکھا گیا اور لفافے میں بند کر کے پتا لکھا گیا ہو:
جناب حافظ سید جنرل عاصم منیر
چیف آف دی آرمی اسٹاف
جی ایچ کیو راولپنڈی
بلکہ ان واقفان کا دعویٰ ہے کہ یہ خط میڈیا کے توسط سے جاری کیا گیا ہے اور فوج سے رابطے میں رہنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ اوّل تو سپہ سالار تو کیا اُن کے دفتر کے دور دور تک بھی ایسا کوئی خط نہیں پہنچا اور اگر پہنچ بھی جائے تو جواب کی اُمید کوئی نہ رکھے بلکہ خودکار جواب ہمہ وقت موجود ہے کہ وزیراعظم (چھوٹے میاں جی) سے رابطہ کریں۔ چناں چہ اندر کی باتیں جاننے والے ذرائع کا دعویٰ ہے، اب بڑے خان صاحب صدر مملکت (مدبر ملت جناب آصف علی زرداری) اور وزیراعظم (خادم پاکستان جناب میاں محمد شہباز شریف) کو خط لکھیں گے۔ قوم خط کی صورت میں مجاہد ملت کے جذبات جاننے کے لیے ذہنی طور پر تیار رہے۔
٭٭٭
چمپئن ٹرافی کا موسم قریب آتا جا رہا ہے، حسب معمول پاکستانی ٹیم کا اعلان سب سے آخر میں کیا گیا ہے اور ہمیشہ کی طرح ٹیم عمومی و خصوصی توقع کے مطابق نہیں ہے۔ کچھ کھلاڑیوں کو پرچی والا قرار دیا جا رہا ہے اور اور کچھ قابل سمجھے اور ٹرافی کھیلنے کا اصلی مستحق سمجھے جانے والے کھلاڑیوں کا شامل نہ ہونے سے بحث اور تبصرے زور و شور سے چل رہے ہیں۔ اچھا ہے قوم کے پاس کوئی نہ کوئی موضوع بات چیت اور بحث کے لیے رہنا چاہیے۔ اگر سب کچھ عوامی توقع کے مطابق ہی ہو تو عوام اپنا زرخیز ذہن اور قابلیت کب استعمال کریں گے اور کب کہاں اس کا اظہار کریں گے۔