افغان سفیر سے ملاقات اور موجود ہ صورتحال کا جائزہ (بادشاہ خان)

”افغان حکومت چاہتی ہے کہ اپنے پڑوسی ملک پاکستان کے ساتھ افغان مہاجرین، تجارت سمیت دیگر معاملات و مسائل حل کرے، تجارت کو سیاست سے الگ رکھا جائے، علماءسمیت وفود کا تبادلہ ہو، دوریوں کو کم کیا جائے، افغانستان کی جانب سے تجارت کے حوالے سے کئی اقدامات بھی کیے گئے ہیں، کوئلہ پر ٹیکس کو مزید پچاس فیصد کم کر دیا ہے، کئی شعبوں میں مزید بہتری لائی جا سکتی ہے، افغانستان سے پھل اور سبزیاں آسکتی ہیں اور پاکستان سے آٹا گندم سمیت سینکڑوں مصنوعات کی افغانستان کو ضرورت ہے، افغان حکومت تاجروں اور تجارت میں آسانیاں فراہم کررہی ہے، افغان مہاجرین کے مسئلے کو اسلام آباد انسانی نظریے سے دیکھے، تاکہ دونوں ملکوں کے عوام میں محبت کا فروغ ہو، نہ کہ نفرت کا۔“
یہ کہنا تھا پاکستان میں تعینات افغان سفیر سردار شکیب کا، انہیں امید ہے کہ حکومت پاکستان مہاجرین کے مسائل کو احسن انداز میں حل کرے گی۔ اگرچہ کئی دیگر مسائل پرافغان سفیر نے محتاط رویہ رکھا، لیکن چند الفاظ میں اسلام آباد سے گلہ بھی ظاہر کیا، انہوں نے کہا کہ افغان مہاجرین جو اسلام آباد میں قانونی طور پر قیام پذیر ہیں، انہیں بھی بغیر کسی وجہ کے ڈی سی آفس این او سی کے نام پر بلا کر گاڑیوں میں بھر کر ہولڈنگ سنیٹرمنتقل کیا جارہاہے اور وہاں سے افغانستان ڈی پورٹ کیا جا رہا ہے، ان افراد کے پاس ویزا سمیت دیگر قانونی دستاویزات موجود ہیں، اس سے عوام میں برا تاثر پیدا ہو رہا ہے، تجارت میں رکاوٹوں کے سوال ان کا کہنا تھا کہ ہماری جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے، پاکستان سے وسطی ایشیا تک آسانی سے پاکستانی مصنوعات کی ترسیل جاری ہے، البتہ پاکستانی حکام کو چاہیے کہ وہ افغان اور پاکستانی تاجروں کےلئے آسانی فراہم کرےں۔
ہم نے اپنے کالموں اور رپورٹس میں پاک افغان تجارت میں مسائل کی کئی بار نشاندہی کی ہے، پاکستان کے سب سے بڑے ڈرائی پورٹ بارڈر طورخم کے حوالے سے شکایتیں عام ہیں، کارگو سے لیکر اداروں کے افراد کے حوالے سے مسائل موجود ہیں، کراچی پورٹ کے بعد سب سے زیادہ ریونیو طورخم سے جمع ہوتا ہے، لیکن اسے نظر انداز کیا جاتا رہا ہے، کئی بار اعلانات ہونے کے باوجود طورخم بارڈر کو آج تک چوبیس گھنٹے فعال نہیں کیا جاسکا، ایک مخصوص تعداد کی گاڑیوں کو دن بھر اجازت ملتی ہے، بنیادی سہولیات سے محروم ڈرائی پورٹ افریقہ کا علاقہ نظر آتا ہے، ڈارئیور و دیگر عملے کےلئے بنیادی سہولیات موجود نہیں، طورخم کی تجارتی گزرگاہ کو اب تو چند کالی بھیڑوں نے منافع بخش دھندے کا ذریعہ بنا لیا ہے اور ایک کارٹل کی شکل میں جمع ہیں۔
طورخم پر روزانہ گاڑیوں کی طویل قطاریاں جان بوجھ کر لگائی جاتی ہیں، تاکہ تاجر مایوس ہوجائیں، دن بھر میں مختلف حیلے بہانے کرکے چند سو گاڑیاں کلیئر کی جاتی ہیں، بلکہ اب تو ہڑتال کی صورت حال معمول بن گئی ہے، طورخم کے راستے وسطی ایشیائی ممالک جو پاکستان کے انتہائی قریب ہیں، کے ساتھ تجارت کو فروغ دیا جا سکتا ہے، لیکن نہیں ہو رہا، پشاور سے طورخم تک کا فاصلہ جو چند گھنٹوں میں طے ہونا چاہیے، آج کل یہ فاصلہ دس سے پندرہ دن میں طے ہوتا ہے، سوال یہ ہے کہ آخری وہ کون سی لابی ہے، جو پاکستان کی بین الاقوامی تجارت کو ناکام کرنا چاہتی ہے، کیا کسٹم افسران اس سازش میں ملوث ہیں؟ یا کوئی اور ملوث ہے؟ سوال کرنے پر سب کو چپ کے روزے لگ جاتے ہیں، اسی طرح کارگو اور ٹرانسپورٹ والے اپنا رونا الگ روتے ہیں کہ ظلم ہوگیا، ہم تباہ ہوگئے۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے سب سے بڑے ڈرائی پورٹ طورخم کے مسائل حل ہوںگے؟ غلام خان اور خرلاچی کو فعال کیا جائے گا؟ خرلاچی کو جان بوجھ کر کون لو گ ہیں کہ فعال نہیں ہونے دے رہے، خرلاچی کے راستے آنے والی گاڑیوں کو کئی کئی دن تک کس کے حکم سے روکا جارہا ہے ؟جو کسٹم ادائی کے بعد واپس بھی نہیں جا سکتے۔ اسی طرح دیگر قبائلی بارڈر کیوں بند ہیں؟ سوال وہی ہے کہ کیا کارٹلائزیشن کا خاتمہ کیا جائے گا؟ یا سب اپنا اپنا حصہ وصول کرکے ملکی تجارت کو تباہ کرتے رہیں گے؟ کیا واقعی طورخم سے جلال آباد تک موٹر وے کو تیزی سے مکمل کیا جائے گا؟ کیاکسٹم حکام، سرحدی ادارے، صوبائی و وفاقی اداروں کو مانٹیر کرنے کی منصوبہ بندی ہوگی؟ کیا کارگو اور ٹرانسپورٹ کے اندر چھپی چند کالی بھیڑوں کو الگ کیا جائے گا؟ کیا مسابقتی کمیشن اس کارٹل کے خلاف ایکشن لے گا، کیونکہ سوال پاکستان کے مستقبل کا ہے۔ ملکی تجارت کو جان بوجھ کر تباہ کرنے کا ہے۔
دوسری جانب ایک اہم مسئلہ پاکستان میں جاری دہشت گردی کا ہے۔ پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کو سپورٹ افغانستان سے مل رہی ہے اور افغان حکومت اسے روکنے میں تعاون نہیں کر رہی۔ یہ وہ سنگین صورتحال ہے کہ جس میں مسلسل پیچیدگی پیدا ہور ہی ہے، اگرچہ دونوں جانب کی اعلیٰ قیادت نے کئی بار کوشش کی کہ دونوں ملکوں کے مابین تعلقات خراب نہ ہوں، لیکن اب ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ دونوں جانب موجود کچھ مخصوص عناصر کسی بھی صورت پاک افغان سرحد پر امن نہیں دیکھنا چاہتے، تاکہ پاکستان اور فغانستان کو ایک نئی جنگ میں دھکیلا جا سکے اور افغانستان میں امن و امان کی کوششوں کو ناکام بنایا جائے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس صورتحال کے دونوں ملک متحمل نہیں ہو سکتے، انہیں ادراک نہیں کہ عالمی طاقتیں کیا چاہتی ہیں، غیر مستحکم پاکستان اور غیر مستحکم افغانستان خطے میں کسی کے بھی مفاد میں نہیں، دونوں ممالک کے ریاستی اداروں کو اس صورتحال پر گہرائی سے غور کرنا ہوگا، تاکہ مستقبل قریب میں حالات بہترہوں، بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عالمی اداروں کے ایجنٹس دونوں طرف فعال ہیں، سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے، اسلام آباد سمیت کابل میں عالمی طاقتوں کے آلہ کار سرگرم ہیں۔ پاک فوج پر حملے ہوتے رہیں گے تو اس پر ردعمل لازمی ہے۔ شاید یہی عالمی طاقتوں کا ہدف ہے۔ امریکا اور اس کے اتحادی افغانستان سے انخلا کرگئے ہیں، لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ان کے جاسوس اور ایجنٹ افغانستان میں اب بھی موجود نہیں یا ان کے منصوبے بھی ختم ہوگئے ہیں۔ افغان حکومت میں ہونے کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی ان پر نظر رکھنے کی ضرورت پہلے سے بڑھ کر ہے، کیونکہ یہ مسئلہ دونوں ملکوں کی خودمختاری، سالمیت اور معاشی بہتری کا ہے۔ اختلافی مسائل کے حل کیلئے مشترکہ میکنزم بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ کشیدگی نہ بڑھے اور تعلقات بحال ہوں۔