ڈونلڈ ٹرمپ 47ویں امریکی صدر کی حیثیت سے حلف اٹھانے کے بعد تمام اصول دوبارہ سے لکھ رہے ہیں۔ ان کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹرمپ بطور صدر اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کرتے ہوئے امریکا میں اس بنیادی تبدیلی کو لانے کی کوشش کریں گے جس کا انہوں نے وعدہ کیا ہے۔
مثال کے طورپر انہوں نے ایک ایگزیکٹیو حکم نامے کے ذریعے امریکا میں پیدائش کے ساتھ ہی شہریت دیے جانے کے 150سال پرانے حق کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسی طرح ان کے کئی دوسرے احکامات پر عملدرآمد کیلئے قانون سازی کی ضرورت بھی پڑے گی لیکن اپنے قلم کی ایک جنبش سے انہوں نے امریکا کو پیرس کے موسمیاتی تبدیلی کے معاہدے سے دستبردار کر دیا، عالمی ادارہ صحت سے الگ کر لیا اور میکسیکو کے ساتھ سرحد پر قومی ایمرجنسی نافذ کر دی۔
ٹرمپ کے جاری کردہ احکامات کا دائرہ کار کئی اہم شعبوں تک پھیلاہوا ہے۔ انہوں نے ایگزیکٹیو حکم بھی جاری کرتے ہوئے 4سال قبل امریکی کیپیٹل ہل میں ہونے والے فسادات میں ملوث تقریباً 1600افراد کیلئے معافی اور سزا میں کمی کر دی ہے۔ جنوری 2021میں ٹرمپ کے ہزاروں حامیوں نے 2020کے صدارتی انتخاب کے نتائج مسترد کرتے ہوئے امریکی قانون ساز اسمبلی پر دھاوا بول کر توڑپھوڑ کی تھی۔
سابقہ حکومت کی ماحول دوست پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے، ٹرمپ نے ماحولیات سے متعلق کئی اہم فیصلے کیے ہیں۔ انہوں نے پیرس ماحولیاتی معاہدے سے امریکا کو علیحدہ کرنے کے اپنے پہلے دور کے فیصلے کو بحال کیا اور ماحولیاتی تحفظ کے کئی قوانین کو نرم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ 2020تک امریکا عالمی سطح پر کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج میں 15فیصد کے قریب حصہ دار تھا، اور نئی پالیسیوں سے یہ تناسب مزید بڑھ سکتا ہے۔ اس سے ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی کوششوں کو شدید دھچکا لگنے کا امکان ہے۔ ٹک ٹاک اور دیگر چینی ایپلی کیشنز پر پابندی کے فیصلے کو دوبارہ نافذ کرنے کے ساتھ ساتھ، ٹرمپ نے امریکی ٹیکنالوجی سیکٹر کو مضبوط کرنے پر زور دیا ہے۔
چین اور امریکا کے درمیان 2023میں ٹیکنالوجی کی درآمدات اور برآمدات کی مالیت 600بلین ڈالر تھی اور ان پابندیوں سے اس میں واضح کمی کا امکان ہے۔ ٹرمپ کی مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی ”ابراہام معاہدے“ کے گرد گھومتی رہی ہے، جس کے تحت اسرائیل اور متعدد عرب ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آئے۔ انہوں نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے علیحدگی اختیار کی تھی اور پابندیوں کو سخت کیا تھا۔ ان کی ممکنہ واپسی مشرقِ وسطیٰ میں ایران سعودی تعلقات پر منفی اثر ڈال سکتی ہے اور خطے میں کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے۔ یاد رہے کہ یمن میں جنگ ختم کرانے میں چین نے اہم کردار ادا کیا ہے جس سے امریکی اسلحہ ساز کمپنیوں کے کاروبار میں واضح کمی آئی ہے۔ فلسطین کے مسئلے پر ان کی یکطرفہ حمایت اسرائیل کے حق میں رہی، جو خطے میں امن عمل کیلئے مزید رکاوٹ بن سکتی ہے۔
ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم میں موجودہ جنگوں کو ختم کرنے اور مزید جنگوں سے گریز کا وعدہ کیا تھا۔ ان کا مو¿قف تھا کہ امریکا کو عالمی تنازعات سے دور رہنا چاہیے اور اپنے وسائل اندرونی ترقی پر خرچ کرنے چاہئیں۔ تاہم ان کے جارحانہ بیانات اور اقدامات اس وعدے کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طورپر ٹرمپ نے گرین لینڈ کو خریدنے کی تجویز پیش کی تھی، جس سے انکار پر ٹرمپ نے قبضہ کا عندیہ دیا ہے جو ڈنمارک اور بین الاقوامی برادری میں تنازعے کا باعث بنی ہے۔ یورپی یونین نے ڈنمارک کی مکمل حمایت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ انہوں نے پاناما اور کینیڈا کے ساتھ تجارتی اور سفارتی معاملات پر سخت بیانات دیے، جو ان ممالک کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی کا سبب بن گئے ہیں۔ ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو کے خلاف دیوار تعمیر کرنے کے اعلانات اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف سخت رویے نے امریکا اور میکسیکو کے تعلقات کو مزید پیچیدہ کر دیا ہے۔
ان بیانات اور اقدامات نے نہ صرف امریکی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات پر منفی اثر ڈالا بلکہ یہ بھی ظاہر کیا کہ ٹرمپ کی ”جنگوں سے گریز“ کی پالیسی محدود مقاصد کے تحت تھی، جس میں اقتصادی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دی گئی۔ یاد رہے کہ ٹرمپ کے ان اقدامات کے اثرات دنیابھر میں یقیناً محسوس کیے جائیں گے۔ مثلاً امیگریشن پالیسیوں کی سختی سے امریکا میں سستی لیبر کی قلت ہو سکتی ہے، جو مختلف صنعتوں کو متاثر کرے گی۔ اس کے ساتھ ہی چین کے ساتھ تجارتی کشیدگی میں اضافے سے عالمی سپلائی متاثر ہو سکتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک جو امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات پر انحصار کرتے ہیں، انہیں شدید نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ کے دور میں عالمی سیاست میں قوم پرستی اور تحفظ پسندی کے رجحانات کو فروغ مل سکتا ہے۔ پیرس معاہدے سے علیحدگی جیسے اقدامات سے امریکا کی عالمی قائدانہ حیثیت پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے اور دیگر ممالک کو اپنی ماحولیاتی پالیسیاں ترتیب دینے میں مشکلات پیش آ سکتی ہیں۔ روس اور یوکرین تنازعہ پر ان کے مو¿قف سے یورپ میں امریکی اثر ورسوخ کم ہو سکتا ہے۔ امیگریشن قوانین میں سختی اور مسلم اکثریتی ممالک پر سفری پابندیوں سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے خلاف جذبات بھڑک سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، تارکین وطن کی تعداد میں کمی سے امریکا میں موجود مختلف کمیونٹیز کو سماجی اور اقتصادی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
”امریکا سب سے پہلے“ کے نعرے پر مبنی وہ چاہتے ہیں کہ امریکی معیشت اور صنعتیں عالمی مسابقت میں سب سے آگے ہوں۔ تاہم یہ حکمت عملی دنیا کے دیگر ممالک کے ساتھ تنازعات کو جنم دے سکتی ہے۔ ان کی قوم پرستی پر مبنی پالیسیز ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ ترقی پذیر ممالک پر بھی اثرانداز ہوں گی۔ ٹرمپ کے اقدامات کے طویل المدتی اثرات کا اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے، لیکن ان کے ابتدائی فیصلے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایک جارحانہ اورغیرروایتی حکمت عملی اپنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس بات میں اب کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اپنی صدارت کی مدت کا ایک بھی لمحہ ضائع نہیں کریں گے۔ وہ اپنی پہچان ایک ایسے صدر کے طورپر بنانا چاہتے ہیں جو تبدیلی کی علامت سمجھا جائے اور انہوں نے اس جانب کام شروع کر دیا ہے۔
ان کی پالیسیوں کے نتیجے میں:
امریکا کی اندرونی سیاست میں مزید تقسیم پیدا ہو سکتی ہے۔
چین کے ساتھ تجارتی جنگ شدت اختیار کر سکتی ہے۔
عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلیوں کے خلاف اقدامات میں کمی آ سکتی ہے۔
مشرقِ وسطیٰ میں تنازعات کی شدت بڑھ سکتی ہے۔
یورپی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات میں کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔
ٹرمپ کے ان اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی صدارتی حکمت عملی ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے، جو عالمی نظام پر دیرپا اثر ڈالے گی۔