طوفان الاقصیٰ پر الجزیرہ کے شاہکار پروگرام ‘ما خفی اعظم’ کی دھوم مچ گئی (ابوصوفیہ چترالی)

7اکتوبر کے ‘طوفان الاقصیٰ’ آپریشن کی تیاری سے متعلق انکشافات نے دنیا کو ششدر کردیا
‘ماخفی اعظم’ الجزیرہ کا تیار کر دہ ایک خصوصی ایپیسوڈ ہے جس کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا۔ واقعی اس ایپیسوڈ نے دھوم مچادی۔ اس میں 7 اکتوبر 2023ء کو ہونے والے ‘طوفان الاقصیٰ’ آپریشن کے بارے میں حیران کن انکشافات کیے گئے ہیں۔ اس پروگرام کو تامر المسحال نے تیار کیا ہے۔ تامر المسحال 23 مارچ 1983ء کو غزہ کے الشاطی پناہ گزین کیمپ میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک صحافی اور دستاویزی فلم ساز ہیں۔ انہوں نے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کے ساتھ کام کیا اور اس وقت الجزیرہ چینل کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ وہ غزہ پر اسرائیلی جنگوں کی رپورٹنگ کے دوران نمایاں ہوئے اور پھر ‘ما خفی اعظم’ پروگرام میں اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے ‘طوفان الاقصیٰ’ کی منصوبہ بندی اور اس کے بعد کی تفصیلات کو نہایت بہترین اور سنسنی خیز انداز سے واضح کیا ہے۔ 56 منٹ کے اس تحقیقی پروگرام میں ایسی نایاب ویڈیوز دکھائی گئیں جو کتائب القسام نے پہلی بار جاری کیں اور ان میں اس کارروائی کی منصوبہ بندی سے لے کر عمل درآمد تک کے تمام مراحل دکھائے گئے۔ ان ویڈیوز میں کتائب القسام کے سربراہ محمد الضیف کو بھی پہلی بار مکمل طور پر دکھایا گیا، جو فوجی آپریشنز کے کمرے میں کھڑے ہو کر حملے کے منصوبے کو آخری شکل دے رہے ہیں۔ اس سے پہلی بار دنیا نے محمد ضیف کو دیکھا اور اس سابقہ پروپیگنڈے کی نفی ہوگئی، جس میں یہ تاثر عام تھا کہ محمد ضیف دونوں ہاتھوں اور ٹانگوں سے معذور ہیں اور وہیل چیئر پر بیٹھ کر کمان کرتے ہیں۔ محمدالضیف نے آپریشنز کے قائدین سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
”ہمیں تاریخ کا دھارا بدلنا ہے تاکہ اس مرحلے میں دشمن پر ایسی ضرب لگائیں کہ تاریخ میں اسے یاد رکھا جائے۔”
اس پروگرام میں کچھ خفیہ دستاویزات بھی دکھائی گئیں جن میں پانچ اکتوبر 2023ء کو الضیف کے دستخط شدہ آپریشن آرڈر شامل تھا، جس میں آپریشن سے دو دن پہلے ہی حملے کا وقت 7 اکتوبر کے دن صبح چھ بج کر تیس منٹ مقرر کیا گیا تھا۔ اس میں اسرائیل کے اہم فوجی اڈوں جیسے یفتاح، ناحل عوز اور کیسوفیم کو حملے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ پروگرام میں حماس کے سیاسی دفتر کے سربراہ یحییٰ السنوار کی گفتگو اور مختلف اُمور بھی شامل تھیں جنہوں نے جنگ کے دوران مزاحمت کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ کتائب القسام کے مرکزی فوجی کونسل کے رکن اور غزہ بریگیڈ کے کمانڈر عز الدین الحدّاد کی خصوصی گواہی بھی پیش کی گئی۔ الحدّاد نے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ فوجی شعبے کی قیادت یکم اکتوبر سے مسلسل اجلاسوں میں تھی تاکہ آپریشن کے نفاذ کے وقت اور نگرانی کو درست کیا جا سکے تاکہ اسرائیلی قیادت جو امریکا اور مغرب کی حمایت سے طاقتور بن چکی ہے، کے سامنے ہمارے انصاف کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں ہوگا، جس میں جارحیت کا خاتمہ اور پورے غزہ کی پٹی سے انخلا شامل ہے۔
عزالدین الحداد نے میزبان تامر المسحال کے ساتھ انٹرویو میں طوفان الاقصیٰ آپریشن کی بہت سی تفصیلات اور رازوں سے پردہ اٹھایا۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح القسام نے اسرائیلی فوج کی حساس انٹیلی جنس اور فوجی معلومات جمع کیں جو اس آپریشن کی کامیابی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ان میں ایسی تفصیلات شامل تھیں جن کی مدد سے صہیونی دشمن کو گمراہ کرنے کا باعث بنیں۔ الحداد نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس، مسجد اقصیٰ اور اسیران کے حوالے سے کے لیے بین الاقوامی عزم کو آگے بڑھانے کی ہماری تمام کوششیں ناکام رہیں تو ہمیں مجبوراً طوفان الاقصیٰ معرکہ شروع کرنا پڑا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ القسام نے ایسی معلومات اپنے قبضے میں لیں جن سے ہمیں پتا چلا کہ غزہ کی پٹی پر 7 اکتوبر سے کچھ دن بعد دشمن ایک تباہ کن جنگ مسلط کرنے کی تیاری کر رہا تھا۔ دشمن کا منصوبہ ایک حیرت انگیز فضائی حملہ کرنا تھا، جس میں تمام مزاحمتی دھڑوں کو نشانہ بنانا شامل تھا، جس کے بعد ایک بڑا اور تباہ کن زمینی حملہ کیا جانا تھا۔ اس لیے ہم نے پہل کرنا ضروری سمجھا۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ القسام انٹیلی جنس برانچ نے اسرائیلی انٹیلی جنس یونٹ 8200 کے سرورز میں سے ایک کو ہیک کیا اور ایک خطرناک دستاویز قبضے میں لے لی۔ ہم نے دشمن کے لیے ایک اسٹرٹیجک فریب کاری کی منصوبہ بندی کی اور اسے یقین دلایا کہ ہم سہولیات کے حصول کے خواہاں ہیں۔ انہوں نے نوٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے مزاحمت کے محور میں موجود بھائیوں کو طوفان الاقصی آپریشن کے بارے میں اپنے نقطۂ نظر سے آگاہ کیا، تاہم اس حوالے سے صرف محدود حلقے میں اطلاع تھی۔ اس رازداری کا مقصد طوفان الاقصیٰ کے بارے میں کسی قسم کی معلومات کو افشا ہونے سے روکنا تھا۔ الحداد نے مزید کہا کہ قابض دشمن نے مسجداقصیٰ اور مغربی کنارے سے دستبرداری کے عوض مزاحمت کو مالی سہولیات کی پیشکش کی لیکن مزاحمت نے اس کا جواب فوجی کارروائی سے دینے کا انتخاب کیا۔ القسام بریگیڈز نے تحقیقات کے ذریعے تصدیق کی کہ یہ آپریشن غزہ میں ایک نئی سیاسی حقیقت کو مسلط کرنے کی قابض فوج کی کوششوں کے جواب میں کیا گیا۔ امریکا اور مغرب کی طرف سے بااختیار قابض قیادت کے پاس سر تسلیم خم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔
الحداد نے انکشاف کیا کہ طوفان الاقصیٰ کی تیاریوں کے سلسلے میں یکم اکتوبر 2023ء سے مستقل اجلاس ہوتے رہے، جو منصوبوں کی منظوری، حتمی شکل دینے اور عمل درآمد کے اوقات کو طے کرنے پر مرکوز تھے۔ فیصلہ کن وقت سے 24 گھنٹے قبل کمانڈ اینڈ کنٹرول رومز کے مرکزی آپریشنز روم کے ساتھ رابطے تیز کردیئے گئے۔ حملے کے لیے نامزد فورسز کو متحرک کرنے کی تیار ی شروع کی گئی۔ جنگی معاون ہتھیاروں کی تیاری کی گئی۔ حملے کے لیے7 اکتوبر کو صبح ساڑھے 6 بجے کا وقت مقرر کیا گیا۔ الحداد نے بتایا کہ حملے کو کس طرح احتیاط سے مربوط کیا گیا تھا۔ میزائل حملے، ڈرونز اور گلائیڈرز کا استعمال کیا گیا اور بحری یونٹوں کی مداخلت انجینئرنگ یونٹس کے ذریعے غزہ کے باہر باڑ گرانے کے بعد ہزاروں ایلیٹ کارکن القسام کے پیادہ جنگجو داخل کرنے کی تیاری کی گئی۔ الحداد نے القسام بریگیڈز کی غزہ ڈویژن کو چند گھنٹوں میں گرانے میں کامیابی کی تصدیق کرتے ہوئے نشاندہی کی کہ قابض فوج اپنی شدت کے باوجود آپریشن کے بارے میں کوئی پیشگی اطلاع حاصل کرنے میں ناکام رہا اور اس کے دفاعی نظام نے مؤثر طریقے سے کام نہیں کیا۔ الحداد نے القسام کے مزاحمت کاروں کی ہمت اور میدان میں ان کے بلند اخلاق کی تعریف کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ انہوں نے آپریشن کے تمام مراحل میں محاذ آرائی اور ذمہ داری سنبھالنے میں اپنی مہارت کا ثبوت دیا۔
عزالدین الحداد نے تصدیق کی کہ طوفان الاقصیٰ جنگ ایک سوچے سمجھے اسٹرٹیجک منصوبے کے تحت شروع کی گئی۔ جس میں دشمن کو دھوکہ دینے اور گمراہ کرنے کے منصوبے کو فعال کرنا شامل تھا۔ دشمن کو گمراہ کرنے کے لیے یہ تاثر دیا گیا کہ غزہ میں مزاحمت صرف سہولیات کے حصول میں دلچسپی رکھتی ہے، اسے اسرائیل کے ساتھ لڑائی میں کوئی سروکار نہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ اس آپریشن کا بنیادی مقصد غزہ ڈویژن پر حملہ کرنا اور اس کے ٹھکانوں اور کیمپوں کو تباہ کرنا تھا۔ اس کے علاوہ فلسطینی عوام کے قیدیوں کو آزاد کرانے کے لیے ممکنہ بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کرنا تھا۔ الحداد نے وضاحت کی کہ آپریشن کی منصوبہ بندی انتہائی احتیاط کے ساتھ کی گئی تھی، کیونکہ حملے کی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے صفر گھنٹے کا وقت تنگ دائرے میں رکھا گیا تھا۔ انہوں نے مزاحمت کے محور کے کردار کی بھی تعریف کرتے ہوئے لبنانی، یمنی اور عراقی مزاحمت کے علاوہ ایران اور غزہ کی جنگ میں حمایت کرنے والے تمام ممالک اور تحریکوں کے کردار کو سراہا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ‘القسام بریگیڈز قیدیوں کے ساتھ سلوک کے سلسلے میں اسلام کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے دشمن کی نظروں سے اسرائیلی فوجیوں کی گرفتاری کو محفوظ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ گرفتاری کے بعد قیدیوں کو ہر ممکن سہولت فراہم کرنے کی کوشش کی مگر دوسری طرف دشمن نے اپنے ہی لوگوں کو ہلاک کرنے کا راستہ چنا”۔
حداد نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ”ذلت آمیز انٹیلی جنس شکست کے بعد قابض دشمن نے امریکی انتظامیہ اور بعض مغربی حکومتوں کی حمایت سے فلسطینی عوام سے وحشیانہ انتقام لینا شروع کر دیا۔” الحداد نے سرزمین کے دفاع کی جنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کی زمینی کارروائیوں کے دوران گھات لگانے، سرنگیں اور بارودی سرنگیں بچھانے اور دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمہ نوع تیاری کی گئی تھی، جس کی وجہ سے دشمن کو بھاری جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا”۔ انہوں نے مزید کہا کہ قابض دشمن کی ناکامی کی سب سے نمایاں علامات پے در پے استعفے اور ناکامی کا اعتراف ہے۔ تحقیقات آگے بڑھیں تو مزید استعفے بھی آئیں گے۔ حداد نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ کے عوام آپریشن ‘طوفان الاقصیٰ’ کی کامیابی کا راز ہیں اور انہوں نے اپنی بہادری کو تاریخ کے اوراق میں ایک ایسی قوم کے طور پر درج کیا ہے جو ناانصافی کو قبول نہیں کرتی۔ اپنے دین اور وطن کے لیے عظیم قربانیاں دیتی ہے۔
سات اکتوبر 2023ء کو القسام بریگیڈز نے غزہ کے اطراف میں اسرائیلی اڈوں، بیرکوں اور بستیوں کو نشانہ بناتے ہوئے اچانک حملہ کیا، جس میں سیکڑوں اسرائیلی فوجی اور افسران ہلاک اور 240 سے زائد افراد کو حراست میں لے لیا۔ یہ حملہ قابض دشمن کے لیے ایک چونکا دینے والا دھچکا تھا اور اس نے تنازعے میں ایک نیا محاذ کھول دیا۔ جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک قابض فوج نے 850 اسرائیلی فوجیوں اور افسران کی ہلاکت اور 6000 کے قریب زخمی ہونے کا اعلان کیا ہے جبکہ دیگر رپورٹس کے مطابق نقصانات کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔