نومبر 2024 میں جنرل حافظ سید عاصم منیر کا مارگلہ ڈائیلاگ سیمینار سے خطاب نہ صرف ایک مدبر سپہ سالار کی ذہانت کا عکاس تھا بلکہ ایک وژنری رہنمائے قوم کی فکری گہرائی اور درد مندی کا بھی مظہر تھا۔
ان کا یہ خطاب آج کی دنیا کی پیچیدہ حقیقتوں کو سمجھنے کی ایک کوشش تھی اور اس میں ملک و قوم کے تئیں ان کی غیر متزلزل وابستگی کا صاف اظہار تھا۔ یہ خطاب صرف ایک عسکری نقطہ نظر سے نہیں بلکہ ایک عالمی سطح پر پاکستان کے موقف اور مستقبل کے لائحہ عمل کو سمجھنے کا ایک منفرد موقع تھا۔
تقریب میں عالمی سطح کے سفارتکاروں، اہم عسکری، سماجی شخصیات، صحافیوں اور مختلف تھنک ٹینکس کے نمائندوں کی موجودگی میں آرمی چیف نے عالمی سطح پر ہونے والی تبدیلیوں کو گہرائی سے اجاگر کیا۔ انہوں نے بین الاقوامی حالات کی تبدیلیوں، پاور شفٹ، موسمیاتی تبدیلیوں، کرونا وبا، سپلائی چین کی مشکلات اور ان سب کے اثرات پر تفصیل سے بات کی۔ ان کے بقول، یہ سب بدلتے ہوئے حالات عالمی سیکیورٹی پیراڈائم کو نئے طریقے سے تشکیل دے رہے ہیں اور ہمیں اپنے موقف کو ان بدلتی ہوئی حقیقتوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
4اسرائیلی فوجی خواتین یرغمالی رہا، بدلے میں 200فلسطینیوں کو آزادی مل گئی
آرمی چیف نے واضح کیا کہ پاکستان اب کسی بھی عالمی یا علاقائی تنازعے کا حصہ بننے کی خواہش نہیں رکھتا۔ سرد جنگ کے دوران اس خطے میں دو بڑی عالمی قوتوں کی مدمقابل تھی، مگر اب ہم ایک آزاد اور خودمختار قوم کی حیثیت سے عالمی سطح پر اپنی جگہ بنانا چاہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ افغانستان میں دہشتگردی کی وارداتوں کے تدارک میں ایک مشترکہ کوشش کی جائے، خاص طور پر دہشتگرد تنظیم ٹی ٹی پی کے خلاف جو افغانستان کی سرزمین سے پاکستان میں دہشتگردی پھیلاتی ہے۔
جنرل عاصم منیر نے بھارتی سرزمین پر مسلم اقلیتوں کے حقوق کی پامالی اور کشمیری عوام کے حق خود ارادیت پر ہونے والے ظلم کی مذمت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انڈیا میں مسلم اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جا رہا ہے، وہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، اور کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیا جانا چاہیے۔ تاہم، انہوں نے بھارت کے ساتھ بقاے باہمی کے اصولوں پر مبنی تعلقات اور مذاکرات کی پیشکش بھی کی۔
پاکستان کے عالمی کردار پر روشنی ڈالتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنے جغرافیائی فوائد سے بھرپور استفادہ کر سکتا ہے۔ اس کی سرزمین نہ صرف زرعی، معدنی اور توانائی کے ذخائر سے مالا مال ہے، بلکہ یہ عالمی سطح پر سرمایہ کاری کے نئے دروازے کھولنے کے لئے ایک اہم مقام ہے۔ اس کے جیو اکنامک اور جیو سٹیبیلٹی کی پالیسی دنیا کے لیے ایک اہم پیغام ہے۔
جنرل عاصم منیر نے اسرائیل کے لبنان اور غزہ پر حملوں کو بھی دہشتگردی قرار دیا اور فلسطین کے حق میں واضح موقف اختیار کیا، یہ کہتے ہوئے کہ پاکستان فلسطین کو 1967 کے نقشے کے مطابق ایک مکمل ریاست کے طور پر تسلیم کرتا ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان عالمی امن کی کوششوں میں ہمیشہ ایک فعال کردار ادا کرے گا اور اقوام متحدہ کی امن مشن میں پاکستان کی شرکت ہمیشہ مثالی رہی ہے۔
روس یوکرائن جنگ کے حوالے سے ان کا موقف تھا کہ پاکستان کسی بھی عالمی تنازعے کا فریق نہیں بنے گا، لیکن امن کے قیام کے لئے کسی بھی ممکنہ کردار کے لیے تیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عالمی سطح پر پاکستان کا موقف واضح ہے اور وہ امن و استحکام کے لیے ہمیشہ اپنا کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہے۔
تقریب کے اختتام پر آرمی چیف نے مہمانوں اور سفارتکاروں سے مختصر ملاقات کی، حالانکہ اس موقع پر تفصیلی تبادلہ خیال کا موقع نہیں ملا، لیکن ان کی فکر انگیز گفتگو نے اس بات کو واضح کر دیا کہ وہ ایک سوچ بچار اور حکمت سے بھرپور رہنمائی فراہم کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ان کا یہ خطاب پاکستان کی سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی پالیسیوں میں اہم سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے۔
اس خطاب میں ایک بات صاف طور پر نظر آتی ہے: جنرل عاصم منیر صرف ایک فوجی رہنما نہیں، بلکہ ایک مدبر اور وژنری رہنماء ہیں جو نہ صرف اپنے ملک کے دفاع کے بارے میں سوچتے ہیں بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے کردار کو بھی بہتر بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کی قیادت میں پاکستان کا مستقبل مضبوط، محفوظ اور خوشحال نظر آتا ہے۔