دفتر خارجہ کی جانب سے پالیسی بیان جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان غزہ میں امن کی حمایت کرتے ہوئے اسے خوش آئند قرار دیتا ہے اور وہ اس مطالبے پر قائم ہے کہ غزہ میں اسرائیل کے جنگی مظالم کی عالمی سطح پر تحقیقات کروائی جائیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کی جانب سے یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب نومنتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حلف برداری کے بعد ایک امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں غزہ میں قیامِ امن سے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے، غزہ میں امن کب تک قائم ر ہ پائے گا۔
کئی دہائیوں سے جاری قضیہ فلسطین ایک پیچیدہ اور کئی رخ رکھنے والا تنازع ہے جس کے حل کے لیے دنیا کے اکثر ممالک حق و باطل، سچ اور جھوٹ، ظالم و مظلوم اور حقیقت اور فریب میں فرق کرکے سچائی کا مکمل ساتھ دینے کی بجائے اپنے اپنے مفادات، اوہام و گمان اور مزعومہ روایات کو ترجیح دیتے ہوئے سیاسی و سفارتی گفتگو تک ہی محدود ہیں اور لاکھوں انسانوں کے لیے شدید مصائب ومشکلات کا باعث بننے والے اس قضیے کو درست بنیادوں پر حل کرنے کی حکمتِ عملی سے عادی دکھائی دیتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ اسرائیل کو امریکا سمیت یورپی ممالک یعنی سفید فام نسل کی ہمیشہ سے ہی پشت پناہی حاصل رہی ہے اور یہ نام نہاد ریاست دراصل دہشت گردی کا ایک اڈہ ہے جس کی سرپرستی امریکا نے اپنے سر لے رکھی ہے۔ غزہ پر برسات کی صورت برسنے والا بھاری گولہ بارود اور میزائل امریکا کے اسلحہ خانے سے اسرائیل کی غاصب افواج کے جہازوں، ٹینکوں اور توپوں تک پہنچایا گیا جس کے نتیجے میں آج غزہ ملبے کا ایک ایسا ڈھیر بن چکا ہے کہ اس کی صفائی کے لیے بھی اکیس برس کی طویل مدت درکار ہے۔ اس وقت بھی غزہ کی تباہ شدہ عمارتوں سے لاشوں کے ملنے کا سلسلہ جاری ہے اور ہزاروں کی تعداد میں ایسے سالم بم بھی ملبے کے ڈھیروں کے موجود ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں۔ شہید ہونے والوں کے علاوہ لاکھوں کی تعداد میں زخمی بچے، خواتین اور بزرگ موجود ہیں جنھیں غذا، صاف پانی اور ضروری ادویہ نیز موسم کی سختی سے محفوظ رہنے کے لیے مناسب رہائش گاہوں کی ضرورت ہے۔
اس حال میں ہونا یہ چاہیے کہ اگر دنیا واقعی انسانیت نوازی کا کوئی نظریہ رکھتی ہے اور وہ انسانوں میں مساوات کے تحت کسی تفریق کی قائل بھی نہیں تو وہ اہلِ غزہ کی امداد کے لیے اپنے ہاتھ کھول دے اور جو کام سالوں پر محیط دکھائی دیتا ہے اسے جلد از جلد نمٹانے کی کوشش کی جائے اور ساتھ عالمی قوانین کی پامالی، انصاف سے روگرادنی، جنگی آداب اور انسانی احترام کی خلاف ورزی کرنے اور نسل کشی کے جرم میں ملوث عالمی مجرم نیتن یاہو، اس کی کابینہ، فوجی افسران بلکہ خود اسرائیل کے صدر کے خلاف بھی عالمی سطح پر مواخذے کی تحریک برپا کی جائے جیسا کہ سوئزرلینڈ میں اس قسم کی آوازیں اٹھ بھی رہی ہیں۔ یہی موقف پاکستان کا بھی ہے جو کہ اسرائیل کے جنگی جرائم کے خلاف عالمی سطح پر تحقیق اور انصاف کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اس دوران امریکی صدر اسرائیل کے پشت بان کا کردار ادا کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر غزہ میں امن کے طویل مدتی قیام سے متعلق کسی بھی یقین دہانی سے انکار کرتا ہے تو اس کا صاف اور واضح مطلب یہی ہے کہ وہ اس نے غزہ کے مظلوموں کی جانب سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں، مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن سے اس کی دلچسپی صرف اس حد تک ہے کہ وہ امریکی معاشی مفاد مثلاً امریکا اور سعودی عرب کے درمیان تجارتی شراکت داری وغیرہ کے لیے استعمال ہو، بصورت دیگر امریکی اسلحہ خانے میں موجود خوف ناک ہتھیار جو اہلِ غزہ کی قوتِ ارادی اور عزم و ثبات کو شکست دینے میں ناکام رہے، ایک مرتبہ پھر اسرائیل کی غاصب افواج تک پہنچائے جا سکتے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے حامی بھی ہیں اور اس کے ساتھ ہی وہ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے امکان کی تائید بھی کرتے ہیں۔ یہ بات وہ شخص کہہ رہا ہے جوکہ غزہ میں جنگ بندی کا کریڈٹ بھی لے رہا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ کے کھیل میں دونوں جانب کھیل رہے ہیں۔ امریکا کو وہی امن قبول ہے جو کہ اس کی مرضی اور خواہشات کے مطابق ہو بصورتِ دیگر وہ بساط کو پلٹنے کی کوشش کرے گا اور جنگ ایک مرتبہ پھر شرو ع ہو جائے گی۔ ان حالات میں سوال یہ ہے کہ آخر غزہ میں مستقل امن کیسے قائم ہو سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اقوامِ متحدہ ہو یا امریکا، یہ دونوں ایک ہی تھیلی کی چٹے بٹے ثابت ہو رہے ہیں، یہ فلسطینیوں کی کسی حد تک خوراک اور امداد تو فراہم کر سکتے ہیں لیکن ا ن کی آزادی، خودمختاری اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے حق میں کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے بلکہ اس کے برعکس یہ اسرائیل کی پشت پر دکھائی دیتے ہیں لہٰذا ان طاقتوں سے امن و سلامتی کی کوئی بھی امید قائم کرنا ہی نادانی اور حماقت ہے۔ یہ مشرقِ وسطیٰ کے حالات کو سفید فام اقوام کے حق موڑنے کے سوا کوئی نہیں کریں گے۔
مسلم امہ اور اسلامی ممالک کو خود ہی یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ فلسطینی مسلمانوں کے حمایت میں کس حد تک آگے بڑھ سکتے ہیں اور فلسطینیوں کو کن ذرائع اور وسائل کے ذریعے امداد وتعاون اور ایک نئی جنگ لڑنے کے لیے وسائل فراہم کر سکتے ہیں۔ مسلم امہ کا باہمی اتحاد و تعاون ہی قضیہ¿ فلسطین کا درست حل پیش کرنے میں معاون و مددگار ہو سکتا ہے۔