ٹرمپ نے چینی صدر کے ساتھ بات چیت کو ”دوستانہ” قرار دے دیا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ان کی حالیہ بات چیت خوشگوار اور دوستانہ ماحول میں ہوئی۔

ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے حوالے سے کسی منصفانہ معاہدے تک پہنچا جا سکتا ہے۔

جمعرات کی شام فوکس نیوزپر نشر ہونے والے انٹرویو میں صدر ٹرمپ سے چین کے ساتھ تجارتی تعلقات پر سوال کیا گیا۔ اس پر انہوں نے کہا : ‘ہماری بات چیت مثبت اور دوستانہ رہی۔ معاملات ٹھیک چل رہے ہیں۔’ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ چین کے ساتھ منصفانہ تجارت کے کسی معاہدے تک پہنچ سکتے ہیں، تو انہوں نے اعتماد کے ساتھ جواب دیا:’میں یہ کر سکتا ہوں۔’

اس سے قبل صدر ٹرمپ نے نہر پاناما پر کنٹرول حاصل کرنے کی دھمکی دی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ چین اس سمندری راہ داری پر اپنا اثر و رسوخ بڑھا رہا ہے۔ انہوں نے زور دیا کہ یہ نہر امریکا نے 1999ء کے اواخر میں پاناما کے حوالے کی تھی اور اس پر چین کا کوئی حق نہیں۔ ٹرمپ نے کہا : ”ہم نے یہ نہر چین کے حوالے نہیں کی تھی بلکہ پاناما کے حوالے کی تھی اور اگر ضرورت پڑی تو ہم اسے واپس لے لیں گے۔”

ٹرمپ کے اس بیان کے بعد چین نے سخت ردعمل دیا۔ چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ماؤ نینگ نے واضح کیا کہ چین نے نہر پاناما کے معاملات میں کبھی مداخلت نہیں کی۔ انہوں نے کہا : ”یہ دعوے بے بنیاد ہیں۔ چین نہر پاناما کے انتظامی امور میں شامل نہیں ہے اور نہ ہی اس نے کبھی اس میں مداخلت کی ہے۔”

پاناما کے صدر خوسے راوول مولینو نے نہر کے حوالے سے کسی بھی ملک کی مداخلت کے الزامات کو مسترد کیا۔ انہوں نے ٹرمپ کی دھمکیوں کے جواب میں کہا : ”یہ نہر پاناما کی ملکیت ہے اور ہمیشہ پاناما کی ہی رہے گی۔” انہوں نے مزید وضاحت کی کہ نہر کے انتظامات مکمل طور پر پاناما حکومت کے کنٹرول میں ہیں اور کسی دوسرے ملک کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔

نہر پانامہ تنازع ہے کیا؟ 

واضح رہے کہ نہر پاناما دنیا کی اہم ترین سمندری گزرگاہوں میں شمار ہوتی ہے، جو بحر اوقیانوس اور بحرالکاہل کو آپس میں جوڑتی ہے۔ یہ نہر 1914ء میں امریکی حکومت کی نگرانی میں مکمل ہوئی تھی اور کئی دہائیوں تک امریکی کنٹرول میں رہی۔ تاہم 31 دسمبر 1999ء کو امریکا نے اسے پاناما کے حوالے کر دیا تھا۔
ٹرمپ کے حالیہ بیان نے نہ صرف چین بلکہ پاناما کے ساتھ بھی امریکی تعلقات میں تناؤ پیدا کر دیا ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ٹرمپ کی یہ دھمکیاں ان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کا حصہ ہیں، جس کا مقصد چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے۔