مریض کہاں جائیں؟ (رفیع صحرائی)

پتا چلا ہے کہ حکومتِ پاکستان نے ادویہ کی قیمتوں پر کنٹرول کا نظام ختم کر کے ادویہ ساز اداروں کو دوائیوں کی قیمتیں مقرر کرنے کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایک سال کے دوران 80ہزار ادویہ کی قیمتوں میں 300فیصد تک اضافہ ہو گیا ہے۔ حکومت نے دواساز اداروں کو لوٹ مار کی کھلی چھٹی دے کر مریضوں کو زندہ درگور کرنے میں اپنا بھرپور ادا کیا ہے۔ اوپر سے مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق دو نمبر اور جعلی ادویات کی مارکیٹ میں بھرمار ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مارکیٹ میں اسی فیصد سے زائد ادویات جعلی ہیں جو دھڑلے سے فروخت کی جا رہی ہیں۔
قارئین کو یاد ہوگا، دو سال قبل بھی ایسا ہی ہوا تھا جب ملکِ عزیز میں جان بچانے والی ادویات کی شدید قلت پیدا ہوگئی تھی یا کر دی گئی تھی جس کی وجہ سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے 110سے زائد قیمتوں میں اضافے کی سفارش کی تھی۔ حکام کا موقف تھا کہ اس وقت ملک میں ضروری ادویات کی سخت قلت ہے اور اگر قیمتوں میں اضافہ نہ کیا گیا تو خدشہ ہے کہ ادویہ ساز کمپنیاں یہ ادویات بنانا اور باہر سے منگوانا بند کر دیں گی۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں لیا گیا تھا جبکہ چند دن پہلے ہی وفاقی کابینہ نے بہت سی ادویات کی قیمتیں فکس کرنے اور 20ضروری ادویات کی قیمتیں 30فیصد کم کرنے کی منظوری دی تھی۔
حقیقت یہ ہے کہ جون 2022ء سے قریباً تمام ادویات کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جولائی 2023ء میں جس نئی ڈرگ پرائس پالیسی کی منظوری دی گئی تھی اس کی وجہ سے 500سے زائد ادویات اور سرجیکل آلات کی قیمتوں میں دس فیصد تک اضافہ ہوا تھا۔ گزشتہ ساڑھے چار سال کے دوران یہ ساتواں بڑا اضافہ تھا جبکہ مالی سال 24، 2023میں دوسرا بڑا اضافہ تھا۔ دوسری طرف مہنگائی نے یہ حال کر دیا ہے کہ درمیانہ طبقہ بھی اب چیخ اٹھا ہے۔ لوگوں کو جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے دو وقت کے کھانے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ سیاستدان عوام کی فلاح کے منصوبے بنانے کے بجائے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور رسوا کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ گزشتہ عام انتخابات میں بھی ٹرن آئوٹ دیکھ لیں۔ ووٹرز کو سیاستدانوں پر اعتماد نہیں رہا۔ سیاسی اختلافات ذاتی دشمنیوں میں بدل چکے ہیں۔ سیاستدانوں کی ہوسِ اقتدار میں مبتلا ہو کر آپس کی لڑائیوں نے ملک کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ہر سیاستدان دوسرے کی ٹانگ کھینچنے، دھوکہ دینے اور مسندِ اقتدار پر پہنچنے کے لیے جوڑ توڑ اور سازشوں میں مصروف رہتا ہے۔ ایسے میں عوام رُل گئے ہیں۔ کوئی بھی حکومت عوام کو ریلیف دینا نہیں چاہتی اور اپوزیشن اس معاملے پر پوری طرح متفق ہوتی ہے کہ ریلیف کی صورت میں حکومت کریڈٹ کیوں لے۔ حکومتی اور اپوزیشن پارٹیاں چکی کے دو پاٹ بن کر عوام کو بری طرح پیس رہی ہیں۔ پانچ فیصد مراعات یافتہ برہمن طبقہ پچانوے فیصد عوام کے ساتھ شودروں والا سلوک کر رہا ہے۔
بات دُور نکل گئی۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کا سب سے زیادہ اثر ان مریضوں پر پڑا ہے جو تین وقت مستقل دوائی کھاتے ہیں۔ بیماری امیر یا غریب کو نہیں دیکھتی۔ دو وقت کی روٹی سے تنگ لوگ تین وقت کی دوائی کے اخراجات کیسے پورے کریں گے؟ یہ سوچنے کی کسی حکومت نے نہ ضرورت محسوس کی ہے اور نہ ہی اس کے پاس اتنی فرصت ہوتی ہے۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ عام اور نچلے طبقے کے لوگ تین کی بجائے ایک وقت دوائی کھانے لگے ہیں۔ یوں ان کا مرض کم ہونے کی بجائے بڑھتا جا رہا ہے مگر وہ فریاد کریں تو کس سے کریں۔ کینسر، اینستھیزیا، نفسیاتی اور دل کے امراض، اعضاء کی پیوند کاری اور جان بچانے والی ادویات کی قلت نے ان امراض میں مبتلا خواتین و حضرات کے لیے خطرناک صورتِ حال پیدا کر دی ہے۔ قیمتیں بڑھانا مسئلے کا حل نہیں ہے بلکہ ادویات کی قلت پر قابو پانا مسئلے کا حل ہے۔ ان اسباب کو دور کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے مصنوعی قلت پیدا کر کے اور حکومتوں کو بلیک میل کر کے عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جا رہا ہے۔ مریضوں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے اور انہیں فٹ بال بنا کر مافیا کے آگے پھینکا جا رہا ہے۔ قیمتوں میں اضافے سے زیادہ اہم کام جان بچانا ہے۔ اس کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔ اربابِ اختیار کو ضروری اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتیں بڑھا کر سارا بوجھ عوام پر ڈالنے کی بجائے ضروری طبی سامان، جراحی کے آلات اور ادویات کی درآمد کے معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے۔
مہنگی ادویات کی درآمد کی بجائے ملکی سطح پر ان ادویات کی تیاری کو فروغ دینا چاہیے اور مقامی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی اس سلسلے میں حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ نہ صرف آئے روز ہونے والی ادویات کی قلت پر قابو پایا جا سکے بلکہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بلیک میلنگ سے بھی نجات مل سکے۔