کیا ٹرمپ ’’نیا مشرقِ وسطیٰ‘‘ منصوبہ آگے بڑھائیں گے؟ (علی ہلال)

روزنامہ اسلام ڈیجیٹل (میگزین ڈیسک) جدید مشرقِ وسطیٰ عالمی قوتوں بالخصوص امریکا کے اہم منصوبوں کی فہرست میں نمایاں ترین منصوبہ ہے۔ نیا مشرق وسطیٰ ایک اسٹرٹیجک منصوبہ ہے جس کا مقصد مشرق کے موجودہ جیو پولیٹیکل نقشے کو تبدیل کرکے اس کی اس انداز سے نئی حد بندی کرنی ہے جو اسرائیلی اور مغربی مفادات کے مطابق ہو۔
تل ابیب یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ایال زیسر مشرق وسطیٰ کے امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ مشرق وسطیٰ کو اسرائیل کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ایال زیسر نے اسرائیل ٹوڈے میں اسرائیل حماس معاہدے پر لکھا ہے کہ جنگ میں اسرائیل کے مکمل فتح کا دعویٰ ناکامی سے دوچار ہوا۔ لبنان میں حزب اللہ اور غزہ میں حماس کا خاتمہ کئے بغیر اسرائیل جنگ بندی معاہدے پر مجبور ہوا جو اسرائیل کی شکست ہے۔ دونوں تنظیمیں اگر اسرائیل پر دوبارہ حملہ نہ بھی کریں تب بھی وہ اپنی اندرونی صفوں کو دوبارہ بحال کریں گی اور نئی طاقت حاصل کرکے دوبارہ اسرائیلی قومی سلامتی کے لیے خطرہ بنیں گی۔ زیسر کے مطابق یہ معاہدہ مکمل طور پر امریکی نومنتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ پر ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے دسمبر میں اپنے جس بیان میں مشرق وسطیٰ پر جہنم کے دروازے کھولنے کی دھمکی دی ہے وہ صرف فلسطینیوں اور حزب اللہ تک محدود نہیں بلکہ اس میں اسرائیل کے لیے بھی اشارہ تھا کہ اسرائیل اگر جنگ بندی کی امریکی تجویز پر عمل درآمد سے انکار کرتاہے تو اس کے لیے بھی انجام اچھا نہیں ہوگا۔زیسر کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل حماس معاہدہ کروایا اور اب ان کی توجہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات پر مرکوز ہے۔ ٹرمپ ہر صورت سعودی عرب کو اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام پر مجبور کرکے جدید مشرق وسطیٰ کے منصوبے کی بنیاد رکھیں گے۔
جدید مشرق وسطیٰ منصوبے پر روشنی ڈالتے ہوئے عرب تجزیہ کار وائل زبون نے لکھا ہے کہ اس منصوبے میں اسرائیل کو علاقائی برتری اور بالادستی دیے جانے کا منصوبہ شامل ہے، جس میں اولین سیڑھی عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات کا قیام ہے تاکہ اسرائیل کی سفارتی تنہائی ختم ہو۔ اس سے نفرت کرنے والے ممالک کم ہوں اور اس کے حلیفوں کی تعداد میں اضافہ ہو۔ اس سے اسرائیل کو خطے کے ہر سیاسی اور عسکری معاملے میں شرکت کا موقع میسر آئے گا اور اسرائیل علاقائی تنازعات میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آجائے گا۔اس میں ٹیکنالوجی ،سیکورٹی اور انٹیلی جنس کے شعبے سرفہرست ہیں۔ مشرق وسطیٰ قدرتی ذخائر بالخصوص تیل اور گیس کے ذخائر سے مالامال ہے۔ ان ذخائر کو عالمی قوتوں اور اسرائیل کے قبضے میں لانا اہم ہدف ہے۔ جس کے لیے اسرائیل کو عرب ممالک کے ساتھ آزاد تجارت ، انفراسٹرکچر پروجیکٹس اور سرمایہ کاری کے ذریعے مداخلت کی راہ دی جائے گی۔ اس منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے علاقائی اقتصادی گروپ کا قیام اور شراکت عمل میں لایا جائے گا جبکہ میڈیا کو استعمال کرتے ہوئے مزاحمتی فکر اور نظریات کو دہشت گردی سے جوڑ کر بدنام کیا جائے گا۔جدید مشرق وسطیٰ میں عرب ممالک کو فرقہ وارانہ ،لسانی، سیاسی اور نسلی بنیادوں پر تقسیم بھی شامل ہے۔ علاقائی عرب ممالک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرکے چھوٹی چھوٹی ریاستیں قائم کی جائیں گی تاکہ اسرائیل کے مقابلے میں وہ کمزور ہوں اور سیکورٹی وٹیکنالوجی میں اسرائیل کے محتاج ہوں۔مشرق وسطیٰ کے ممالک میں نسلی اور گروہی بنیادوں پر اختلافات کی حوصلہ افزائی کی جائے گی جبکہ بعض نسلی وفرقہ وارانہ گروپوں کے مقابلے میں ان کے حریفوں کی حمایت کرکے اختلافات کو ہوا دی جائے گی۔
اکتوبر 2024ء میں برطانوی خبررساں ادارے کی عربی ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رپورٹ میں بھی اعتراف ہوا ہے کہ جدید مشرق وسطیٰ کا موضوع اس وقت اسرائیل کے اعلیٰ حکام کا اہم ترین موضوع بن چکاہے جن میں سرفہرست اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو ہیں۔ اکتوبر 2023ء کے بعد سے اسرائیل کے متعدد ذمہ داروں نے متعدد عالمی تقاریب میں جدید مشرق وسطیٰ کے نقشے لہراکر صہیونی ریاست کے عزائم سے آگاہ کیا ہے۔ نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے دوران دو نقشے لہرائے جن میں سے ایک میں سبز رنگ کے ممالک کو دکھایا گیا تھا، جنہیں اسرائیل کے حلیف ممالک کا نام دیا گیا تھا جبکہ دوسرے نقشے پر سیاہ رنگ تھا، اُن ممالک کو اسرائیل کے دشمن ممالک کے طور پر شامل کیا گیا تھا۔ ترک صدر رجب طیب اردوان نے بھی اس پر اپنے خطاب میں بات کی۔ انہوں نے اس نقشے کو اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کا نام دیتے ہوئے بتایا کہ اسرائیل غزہ اور مغربی کنارے پر اکتفا نہیں کرے گا بلکہ دجلہ و فرات کے درمیانی علاقے پر قبضہ اس کا خواب ہے، جس کا اعلان اسرائیل نقشے پیش کرکے کررہاہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ دنوں اسرائیل کی فوجی بجٹ بنانے والی ناغال کمیٹی نے بھی اسرائیلی وزیراعظم کو دفاعی بجٹ میں مزید اضافے کی رپورٹ دیتے ہوئے کہاہے کہ شام میں اسرائیل کا اگلا حریف ترکیہ ہے جس کے ساتھ اسرائیل کی جنگ ہوگی۔اسرائیلی انٹیلی جنس کی سابق خاتون آفیسر اور سیکورٹی ماہر میری آئیسین نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے گزشتہ برس لبنان میں جنگ میں زمینی حملہ کرنا اور حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ کو مارنا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اسرائیل کا بیک وقت غزہ، مغربی کنارہ، لبنان، یمن، شام اور عراق میں حملے کرنا مزاحمتی محور کو ختم کرنا ہے۔ میری ائیسین کے مطابق اسرائیل خطے میں مزاحمتی محور کو ختم کرکے اپنے توسیع پسندانہ منصوبے کو آگے بڑھا رہاہے۔ خیال رہے کہ جدید مشرق وسطیٰ کا تصور سب سے پہلے سابق امریکی وزیرخارجہ کونڈولیزا رائس نے پیش کیا تھا جس کے بعد اس منصوبے کو رینڈ کارپوریشن اور کارنیگی جیسے اداروں میں مزید تحقیق کے لیے رکھا گیا تھا۔ گزشتہ برس یہ منصوبہ سامنے آگیا ہے جس کے باعث مشرق وسطیٰ کے ماہرین عرب اسپرنگ ، سوڈان کی لڑائی، شامی تبدیلی اور لبنان وعراق میں جاری تبدیلیوں کو اسی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔