گناہ کے دنیاوی اثرات۔ محمد عرفان ندیم

راستے سے جنازہ گزر رہا تھا، سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرا تو فرمایا: ”یہ آرام پانے والا ہے یا اس سے دنیا کو آرام ملنے والا ہے۔”
ساتھ کھڑے صحابہ کرام کو بات سمجھ میں نہ آئی، سوالیہ نظروں سے رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھنے لگے، آپۖ نے فرمایا: ”جب کوئی مومن اور نیک انسان وفات پاتا ہے تو وہ اس دنیا کی تکلیفوں اور مصیبتوں سے آرام پاتا ہے اور جب کوئی گناہگار انسان وفات پاتا ہے تو یہ دنیا، شہر، درخت اور حیوانات اس سے آرام پاتے ہیں۔”
اس مختصر حدیث میں ہمیں ”گناہ” کے فلسفے اور گناہ کی نفسیات کے بارے بہترین راہنمائی ملتی ہے۔ ہم گناہوں کو عموماً صرف اخروی زندگی کے تناظر میں دیکھتے ہیں اور ان کے دنیاوی اثرات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ گناہ کے نتائج صرف قیامت کے دن ظاہر ہوں گے جس نے جنت میں جانا ہوگا وہ جنت میں چلا جائے گا اور جس نے جہنم میں جانا ہوگا وہ جہنم میں چلا جائے گا لیکن یہ محدود اور ناقص نقطہ نظر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر گناہ نہ صرف اخروی طورپر اثرانداز ہوتا ہے بلکہ دنیاوی زندگی پر بھی گہرے نقوش چھوڑتا ہے۔ گناہوں کے اثرات آخرت میں تو سزا کی صورت میں ظہور پذیر ہوں گے لیکن اس دنیا میں بھی ہر گناہ جسمانی، روحانی یا نفسیاتی طور پر اپنا اثر چھوڑتا اور انسان کو جسمانی، روحانی یا نفسیاتی طور پر متاثر کرتا ہے۔
مثلاً ہم دیکھ سکتے ہیں کہ گناہ کی وجہ سے ابلیس کو آسمان سے زمین پر اتارا گیا، وہ ملعون ہوا، رحمت کے بجائے لعنت کا مستحق ٹھہرا اور قرب کے عوض بعد ملا۔ وہ گناہ ہی تھا جس کے سبب قوم نوح کو طوفان میں غرق کیا گیا۔ قوم ثمود پر چیخ کا عذاب آیا جس سے ان کے بھیجے اور کلیجے پھٹ گئے۔ قوم لوط کی بستیاں آسمان تک لے جا کر الٹ دی گئیں اور اوپر سے پتھر برسائے گئے۔ قوم شعیب پر بادل کی شکل میں آگ برسی۔ فرعون اور اس کی قوم کو بحر قلزم میں غرق کیا گیا۔ قارون کو گھر اور مال و اسباب سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔ بنی اسرائیل پر ایسی قوم کو مسلط کیا گیا جو ان کے گھروں میں گھس گئی اور ان کو تہس نہس کر ڈالا۔ کچھ گناہوں کے اثرات خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتائے، فرمایا جب کسی قوم میں بے حیائی کے کام علی الاعلان ہونے لگیں گے تو وہ طاعون اور ایسی ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوں گے جو ان کے بڑوں کے وقت میں نہیں تھی۔ جب کوئی قوم ناپ تول میں کمی کرنے لگے تو قحط اور تنگی اور حاکموں کے ظلم میں مبتلا ہوگی۔ جب کوئی قوم زکوٰة کی ادائیگی روک دے گی تو رحمت کی بارش ان سے روک دی جائے گی۔ جب کوئی قوم عہد شکنی یا وعدہ خلافی کرے گی تو اللہ دشمن کو ان کے اوپر مسلط کر دے گا جو جبراً ان کے مال ہڑپ کر لیں گے۔
اس لیے لازم ہے کہ اس حقیقت کو سمجھا جائے کہ گناہ کے اثرات صرف آخرت تک محدود نہیں رہتے بلکہ دنیا میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوکر رہتے ہیں۔ ہر گناہ کا اخروی کے ساتھ ایک دنیاوی پہلو بھی ہوتا ہے جو جسمانی، روحانی اور نفسیاتی طورپر اثرانداز ہوتا ہے۔ پھر یہ دنیاوی پہلو صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی اپنا اثر چھوڑتا ہے۔ جب انسان کوئی گناہ کرتا ہے تو وہ اپنے اندر ایک خلا محسوس کرتا ہے۔ یہ خلا روحانی بے سکونی اور داخلی بے ترتیبی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ انسان کی روح جو پاکیزگی اور روحانیت کی متلاشی ہے گناہ کے سبب اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں دل کی حالت متاثر ہوتی ہے، سکون ختم ہو جاتا ہے اور زندگی میں بے مقصدیت کا احساس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ روحانی خلا نہ صرف انسان کے تعلق مع ا للہ کو متاثر کرتا ہے بلکہ اس کی عبادات اور دعاؤں کی تاثیر کو بھی کمزور کر دیتا ہے۔
گناہ کے اثرات جسمانی طور پر بھی اثرا نداز ہوتے ہیں، مثلاً نشہ آور اشیاء کا استعمال، زیادہ کھانے پینے کی عادت اور فحاشی کی طرف رغبت انسان کی جسمانی صحت کو تباہ کر دیتی ہے۔ ہر سال تقریباً 3.3ملین افراد الکحل کے غلط استعمال کی وجہ سے موت کا شکار ہوتے ہیں جبکہ تمباکو نوشی اور دیگر منشیات کی وجہ سے تقریباً 8ملین اموات واقع ہوتی ہیں۔ گناہوں کی یہ شکلیں نہ صرف وقتی نقصان پہنچاتی ہیں بلکہ طویل مدتی بیماریوں مثلاً کینسر، دل کی بیماریاں اور دیگر سنگین طبی مسائل کا باعث بنتی ہیں۔ فحاشی اور بے حیائی کے گناہوں کے جسمانی اثرات بھی انتہائی مہلک ہو سکتے ہیں۔ طبی ماہرین کے مطابق جنسی بے راہ روی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریاں جیسے ایڈز ہر سال لاکھوں افراد کی جان لیتی ہے۔ یہ تمام حقائق اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ گناہوں کے جسمانی اثرات کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں۔
نفسیاتی طور پرگناہوں کے اثرات سب سے زیادہ گہرے ہوتے ہیں۔ گناہ کرنے کے بعد انسان کے ضمیر میں خلش پیدا ہوتی ہے۔ یہ ضمیر کی خلش انسان کو بے چین رکھتی ہے اور وہ ایک دائمی تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق 85 فیصد افراد جو ڈپریشن یا بے چینی کا شکار ہوئے انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کے اعمال یا گناہوں نے ان کی ذہنی حالت پر منفی اثر ڈالا۔ بعض اوقات یہ کیفیت انسان کو ذہنی بیماریوں کی طرف لے جاتی ہے جیسے ڈپریشن، بے چینی یا احساسِ کمتری وغیرہ۔ یہ نفسیاتی اثرات صرف فرد تک محدود نہیں رہتے بلکہ اس کے رویے کے ذریعے اس کے اہلِ خانہ، دوستوں اور معاشرتی تعلقات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلسل گناہوں کی عادت انسان کے اخلاقی معیار اور اس کی فطرت کومسخ کر دیتی ہے اور وہ صحیح اور غلط کے فرق کو بھولنے لگتا ہے۔ ان تمام اثرات کا مجموعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ گناہ انسان کی شخصیت اور اس کی فطرت کو بگاڑ دیتا ہے۔ انسان کی سوچ، اس کی عادات اور اس کا طرزِ زندگی سب کچھ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ نہ صرف اپنی زندگی کو مشکل بنا لیتا ہے بلکہ اپنے اردگرد کے لوگوں کے لیے بھی مشکلات کا باعث بنتا ہے۔ گناہ ایک ایسی زنجیر ہے جو انسان کو پستی کی طرف دھکیلتی ہے اور اس کی دنیوی واخروی ترقی کی راہیں مسدود کر دیتی ہے۔
لازم ہے کہ ہم گناہ کو صرف آخرت کے تناظر میں نہ دیکھیں بلکہ اس کے دنیاوی اثرات کو بھی سمجھیں۔ یہ شعور انسان کو گناہ سے بچنے میں مدد اور اپنی زندگی کو بہتر بنانے کی ترغیب دے سکتا ہے۔ گناہ سے دوری نہ صرف اخروی کامیابی کا ذریعہ ہے بلکہ دنیا میں بھی سکون، صحت اور خوشی کا ضامن ہے۔ اس لیے لازم ہے کہ گناہ کو صرف آخرت کے دائرے تک محدود نہ رکھا جائے بلکہ اس کے دنیاوی اثرات کو بھی سمجھا جائے تاکہ ہم اپنی زندگی کو بہتر اور متوازن بنا سکیں۔