غزہ میں امن کیلئے معاہدے کی تیاری حتمی مرحلے میں داخل ۔ علی ہلال

حماس اور اسرائیل کے درمیان غزہ کی پٹی میں جنگ بندی اور قیدیوں کے تبادلے کے نئے معاہدے کے حوالے سے قاہرہ چند دنوں کے اندر حتمی نقطہ نظر تیار کرنے کے لیے ایک اجلاس کی میزبانی کرے گا۔

عرب خبررساں ادارے العربیہ کے مطابق معاہدے کے پہلے مرحلے میں ترامیم کی گئی ہیں۔ ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ پہلے مرحلے کے اندر کئی اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا جائے گا۔ ان میں بوڑھے اور بیمار افراد بھی شامل ہیں تاکہ معاہدے کو آسان بنایا جا سکے۔ثالثوں امریکا، مصر اور قطر نے حماس اور اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے کوئی نئی تجویز پیش نہ کریں اور اپنے سابقہ مطالبات پر مطمئن رہیں۔ ثالثوں نے متنازع نکات کو ملتوی کرنے اور قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے کے پہلے مرحلے پر عمل درآمد کے بعد انہیں حل کرنے کے لیے کام کرنے کی تجویز بھی دی۔عرب میڈیا کے مطابق حماس نے 7 اکتوبر 2023ء سے حماس کے زیرحراست زندہ قیدیوں کی تفصیلی فہرست تیار کرنے کے لیے دس دن کی آخری تاریخ کی درخواست کی ہے۔

غزہ جنگ کے 450 دن۔ کیا کھویا کیا پایا، ابو صوفیہ چترالی

سات اکتوبر 2023ء کو غزہ کی پٹی سے اسرائیلی بستیوں اور فوجی اڈوں پر حماس کے حملے کے بعد اسرائیلی جنگ کے آغاز کے بعد سے نومبر 2023ء میں صرف ایک عارضی جنگ بندی عمل میں آئی ہے۔ اس جنگ بندی کے دوران 100 کے قریب اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ تل ابیب کی جیلوں میں 10300 سے زیادہ فلسطینی قیدی موجود ہیں۔اسرائیلی میڈیا کے مطابق وزیرِ اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے جمعرات کو اسرائیلی مذاکرات کاروں کو یرغمالیوں کی رہائی کا معاہدہ طے کرنے کے لیے دوحہ میں مذاکرات جاری رکھنے کا اختیار دے دیاہے۔ قبل ازیں اسرائیل اور حماس حال ہی میں معاہدے میں تاخیر کے لیے ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے ہیں۔قطر، مصر اور امریکا کی ثالثی میں حالیہ ہفتوں میں دوحہ میں بالواسطہ مذاکرات ہوئے ہیں، جس سے جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے معاہدے کی دوبارہ امید پیدا ہوگئی۔ تاہم گزشتہ ماہ کے آخر میں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے پر رکاوٹیں پیدا کرنے کے الزامات کے باعث معاہدہ دوبارہ تاخیر کا شکار ہوگیا۔
جمعرات کو نیتن یاہو کے دفتر سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ انہوں نے انٹیلی جنس ایجنسی موساد، اسرائیلی دفاعی افواج اور آئی ایس اے (اندرونی سلامتی ایجنسی) کے پیشہ ورانہ وفد کو دوحہ میں مذاکرات جاری رکھنے کا اختیار دے دیا ہے۔ دسمبر میں حماس نے کہا کہ اگرچہ مذاکرات ’سنجیدہ انداز میں‘ جاری تھے لیکن اسرائیلی مذاکرات کاروں نے نئی شرائط پیش کردیں جس کی وجہ سے معاہدے میں تاخیر ہوئی۔ اسرائیل نے اِن الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ معاہدے کی راہ میں ’نئی رکاوٹیں‘ حماس نے پیدا کیں۔ اسرائیل میں نیتن یاہو کے ناقدین بشمول غزہ میں قید درجنوں یرغمالیوں کے رشتہ داروں کا کہنا ہے اسرائیلی وزیراعظم سیاسی مفادات کے حصول کے لیے قیدیوں کے معاہدے میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔ تقریباً 15 ماہ کی جنگ کے دوران صرف ایک مرتبہ نومبر 2023ءمیں جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔ ایک ہفتے کے توقف میں اسرائیل کے زیرِ حراست 240 فلسطینیوں کے بدلے 80 اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کیا گیا تھا۔ ان کے علاوہ 25 دیگر اسیران بھی رہا کیے گئے جن میں زیادہ تر تھائی فارم ورکرز تھے۔ گزشتہ جنگ بندی کے بعد سے مذاکرات میں ایک اہم متنازع نکتہ دیرپا جنگ بندی کی راہ میں حائل رہا ہے۔

نومبر 2023ء میں عارضی جنگ بندی کے دوران 100 کے قریب اسرائیلی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا

فلسطینی اُمور پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک اور حل طلب مسئلہ غزہ جنگ ختم ہونے کے بعد کی حکمرانی کا ہے جو منقسم فلسطینی قیادت سمیت اسرائیل کے لیے انتہائی متنازع ہے۔ اسرائیل متعدد بار دھمکی دے چکا ہے کہ وہ 2007ءسے غزہ پر حکمرانی کرنے والی حماس کو دوبارہ کبھی بھی فلسطینی علاقے کا انتظام چلانے کی اجازت نہیں دے گا۔

صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو نے کہا ہے کہ وہ غزہ سے فوج کے مکمل انخلاءپر راضی نہیں ہیں۔ دوسری جانب فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس نے کہاہے کہ تنظیم ان دنوں نئے جنگجو بھرتی کررہی ہے۔ یہ انکشاف ایسے وقت سامنے آیا ہے جب غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان فائربندی کے مذاکرات مکمل کرنے کی تیاری جاری ہے۔ العربیہ کے مطابق کو حماس کو تنظیم میں شمولیت کے لیے درخواستیں موصول ہورہی ہیں۔ مزید یہ کہ غزہ میں تنظیم کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ حماس کے ذرائع کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے لیے حماس کو ختم کرنا ممکن نہیں۔ تنظیم غزہ کی پٹی میں خود کو بحال کرنے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے۔