شام کی نئی قیادت اور کُرد مسئلہ۔ علی ہلال

کرد عسکری گروپ ’قاد‘ کے وفد کی منگل کو شامی ملٹری آپریشنز مینجمنٹ کے سربراہ احمد الشرع کے ساتھ ملاقات ہونے کے بعد شام میں نئی آرمی کی تشکیل کے مراحل زیر بحث ہیں۔

شامی میڈیا کے مطابق ملاقات میں کرد ڈیموکریٹک فورسز کی تحلیل اور وزارتِ دفاع کے جھنڈے تلے لانے کے لیے ہونے والے مذاکرات پر اتفاق ہوا ہے، جس کے تحت آئندہ دنوں مذاکرات کے حوالے سے مزید ملاقاتیں متوقع ہیں۔ کرد عسکری گروپ کے وفد کی احمد الشرع کے ساتھ ملاقات ایسے وقت ہوئی ہے جب شام کی سیرین نیشنل آرمی (الجیش الوطنی السوری) شام کے مشرقی صوبوں الرقہ اور الحسکہ میں کرد ڈیموکریٹک فورسز کے خلاف آپریشن جاری رکھے ہوئے ہے۔ کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف ترکی کے حمایت یافتہ الائنس کا آپریشن 29 نومبر کو شروع ہوا تھا۔ جسے فجر الحریة (ڈان آف فریڈم) کا نام دیا گیا تھا۔ اس آپریشن کا مقصد کرد فورسز کو ان علاقوں سے بے دخل کرنا تھا جہاں سے ہیئة تحریر الشام کی پیش قدمی کے دوران اسدی فورسز نے انخلاءکرکے کرنا تھا تاکہ کرد فورسز ماضی کی طرح ان علاقوں پر قابض نہ ہوسکیں۔

میڈیا اور جنگی جنون – حامد میر

آٹھ  دسمبر کو بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد بھی کرد ملیشیا گروپوں کے خلاف یہ آپریشن جاری ہے۔ احمد کہ قیادت میںہیئة تحریر الشام کی جانب سے کرد قوم کو مثبت پرامن پیغام دیا گیا تھا۔ جسے عراقی نیم خودمختار صوبہ کردستان کے سربراہ مسعود بارزانی نے بھی خوش آئند قرار دیا تھا۔ تاہم شامی کرد گروپوں کی جانب سے دمشق کی نئی انتظامیہ کے ساتھ عملی رابطہ نہیں ہوا۔ شام میں کردوں کی اہمیت کیا ہے اور ان کی نئی شامی آرمی میں شمولیت سے انکار پر احمد الشرع کی حکومت کے لئے کن مشکلات اور چیلنجوں کا خدشہ ہے اسے سمجھنے کے لئے شام میں کرد ڈیموکریٹک فورسز کے بارے میں جاننا لازمی ہے۔ شام کے مشرق اور شمال مشرق میں تین صوبوں دیرالزور، الرقہ اور الحسکہ میں کرد گروپوں نے سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کے نام پر ایک ادارہ قائم کررکھا ہوا ہے۔ یہ ادارہ 21جنوری 2014ء سے قائم ہے۔ اس سے سلقبل سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کی جگہ ویسٹ کردستان کونسل قائم تھی جسے تحلیل کرکے سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کی بنیاد رکھی گئی۔ اس کا ایگریمنٹ بھی ہے جسے آئین کی حیثیت حاصل ہے۔ کرد سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کو کرد زبان میں روج آفا کہا جاتا ہے۔ جو کردوں کے ایک الگ وطن کے تصور کے ساتھ وابستہ ہے۔ اگرچہ اس معاہدے میں کردوں کے علاوہ عرب اور سریانی سمیت کچھ دیگر کمیونٹیاں بھی شامل ہیں تاہم ان کی نمائندگی کچھ زیادہ موثر نہیں ہے۔ کرد سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ پر متعدد اعتراضات بھی ہیں۔ مذہبی لحاظ سے کرد ڈیموکریٹک ادارے نے مذہب کو انسان کی شخصی آزادی اور ذاتی فیصلہ سے تعبیر کیاہے۔
تاہم اس پر ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ نظریہ کردستان لیبر پارٹی کا بھی ہے بلکہ اس سے لیا گیا ہے۔ جسے ترکی سمیت کئی ممالک کالعدم قرار دے چکے ہیں۔ شام کی سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ کو شام کے معزول صدر بشار الاسد کی حمایت حاصل رہی۔ مارچ 2011ء سے شامی تحریک کے آغاز سے ہی اسدی انتظامیہ نے کرد مینجمنٹ کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے اور انہیں شامی تحریک سے دور رکھنے کے لیے کئی اقدامات کئے۔ بشار الاسد نے اس دوران 3لاکھ کردوں کو شامی شہریت بھی دے دی تاکہ انہیں تحریک سے دور رکھا جائے۔ جن علاقوں کا کنٹرول مشکل ہورہا تھا انہیں کردوں کے حوالے کردیا۔ یہی وجہ تھی کہ اس وقت سے لیکر اب تک شام کے 28فیصد سے زائد علاقہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ یہ شام کے وہ علاقے ہیں جہاں تیل کے ذخائر ہیں۔ کردوں نے ان علاقوں میں پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے نام سے عسکری گروپوں کی تشکیل دی۔ ان گروپوں نے شامی اپوزیشن گروپوں کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ شروع کیا۔ کرد جن گروپوں کے خلاف لڑے ہیں ان میں موجودہ شامی ہیئة تحریر الشام سرفہرست ہے۔ 2015ءمیں کرد سیلف ڈیموکریٹک مینجمنٹ نے پیپلز پروٹیکشن یونٹس کے بعد کردڈیموکریٹک فورسز کی بنیاد جس کا کوڈ نام قسد ہے۔ اس وقت شام کے عسکری منظر نامے میں یہ گروپ نمایاں ہے اور احمد الشرع کے ساتھ اسی عسکری گروپ کے وفد نے ملاقات کی ہے۔
کرد عسکری گروپوں نے شام میں 2015ء کے بعد زیادہ پیش قدمی کی۔ اور متعدد اہم علاقے کنٹرول میں لے لیے۔ کردوں کے زیر کنٹرول علاقوں میں اس وقت بھی تیل کے بڑے کنویں موجود ہیں۔ جن میں شام کے تین بڑے آئیل فیلڈز سویدیہ رمیلان اور العمر سمیت 13کنویں شامل ہیں۔
کردوں کو روس کی مدد حاصل رہی تاہم بعد میں داعش کے خلاف آپریشن میں کرد امریکا کے اہم ترین اتحادی بنے اور امریکا نے انہیں بھرپور اسلحہ فراہم کیا داعش کے خلاف لڑتے ہوئے کردوں نے جرابلس پر کنٹرول کی کوشش کی۔ 2019ء میں کرد گروپ داعش کو شکست دینے میں کامیاب ہوگئے تاہم کردوں کی بڑھتی ہوئی پیش قدمی اور مشرق سے شمال کے حلب تک رسائی پر ترکی نے ان کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ ترکی نے 2016ء سے 2019ء تک کردوں کے خلاف شامی علاقے میں تین آپریشن کئے ہیں۔ اس وقت جب شام سے بشار الاسد بوریاں بستر سنبھال کر نکل گئے ہیں اور ہیة تحریر الشام شام میں نئی عبوری حکومت قائم کرچکی ہے۔ ایسے میں ملک کی نئی آرمی تشکیل دی جا رہی ہے جس کے پیش نظر شام میں تمام عسکری گروپوں کو تحلیل کرکے ان کے پاس موجود ہتھیاروں کو جمع کیا جا رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے شام کے کئی بڑے عسکری دھڑوں کی احمد الشرع کے ساتھ ملاقات ہوئی ہے اور انہوں نے تحلیل ہوکر خود کو وزارت دفاع کے تحت رجسٹرڈ کرکے فوج کا حصہ بننے کا عندیہ دیا ہے۔ تاہم کرد گروپوں کے بارے میں اب تک کوئی واضح پیغام سامنے نہیں آیا۔ جس کی وجہ سے کل ہونے والی یہ ملاقات بہت اہم ہے۔