Senate of Pakistan

سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل جاری

اسلام آباد: وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے سینیٹ میں 26 ویں آئینی ترمیم کا بل پیش کردیا، جس سے دوتہائی اکثریت سے منظور کرلیا گیا اور اب ترامیم کی شق وار منظوری کا عمل جاری ہے۔

وفاقی وزیراعظم قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26 ویں آئینی ترمیم ایوان بالا میں پیش کیا اوراس کے بعد منظوری کے لیے ووٹنگ کے لیے تحریک پیش کردی جو ایوان کی دو تہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی، ترمیم کے حق میں 65 اراکین نے ووٹ دیا۔

چیئرمین سینیٹ نے ایوان کے تمام دروازے بند کرنے کا حکم دیتے ہوئے ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل شروع کردیا، پہلی ترمیم کے حق میں دو تہائی اکثریت 65 اراکین نے ووٹ دیا، 4 نے مخالف کردی، اس دوران جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے بھی ترامیم پیش کیں اور وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے اس کی حمایت کی اور کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔

جمعیت علمائے اسلام نے آئین کے آرٹیکل 38 کے پیراگراف ایف میں ترمیم کی تجویز پیش کی، جس میں کہا گیا کہ سودی نظام کاخاتمہ جتنا جلدی ممکن ہو کیا جائے گا، حکومت کی حمایت پر ایوان نے آرٹیکل 38 میں ترمیم منظور کرلی، 65 ارکان نے حق میں ووٹ دیا جبکہ مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں پڑا۔

آرٹیکل 48 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کی گئی کہ وزیراعظم اورکابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانے والی کسی بھی ایڈوائس پر کوئی ادارہ کوئی ٹریبیونل اورکوئی اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکے گی، سینیٹ نے آرٹیکل 48 میں مجوزہ ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی۔

آئینی ترمیم کے لیے سینیٹ کا اجلاس

اس سے قبل چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس تلاوت کلام پاک سے شروع ہوا تو قائد ایوان اسحاق ڈار نے ایوان میں وقفہ سوالات اور معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی اور اس تحریک کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے خطاب میں کہا کہ آئینی ترمیمی بل پر اسپیکر کی ہدایت پر کمیٹی بنائی گئی اور اس کمیٹی میں بغور اس کا جائزہ لیا گیا ہے، اس بل کو ضمنی ایجنڈے میں دیا گیا ہے لہٰذا اس کو ٹیک اپ کیا جائے۔

اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئنی ترمیم پیش کرنے کی تحریک ایوان میں پیش کردیا، جس کو متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا، اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار کو اٹھارھویں آئینی ترمیم میں پیش کیا گیا، اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی تقرری کو شفاف بنانے کے لیے طریقہ کار پیش کیا گیا تھا اور اس پر ایک پارلیمانی کمیٹی بنائی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کو اختیار دیا گیا تھا کہ وہ کسی نامزدگی کو روک سکتے تھے، اس حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کروائی گئی اور عجلت میں انیسویں ترمیم کی گئی اور اس میں مذکورہ کمپوزیشن کو بدل دیا گیا، اس کمیشن میں کمپوزیشن کے دوران ارکان کا جھکاؤ ایک ادارے کی طرف کردیا گیا۔

وزیر قانون نے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے طریقہ کار پر بار کونسلز نے تحفظات کا اظہار کیا اور سپریم کورٹ بار کی جانب سے مطالبہ کیا گیا، تجویز دی گئی کہ آئین کے آرٹیکل 175/3میں ترمیم کی جائے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن سپریم کورٹ کے ججوں کی سربراہی میں ہوگا، کمیشن کے لیے چار اراکین پارلیمنٹ سے لیے جائیں گے، جوڈیشل کمیشن کی کمپوزیشن میں تجویز کیا گیا ہے، چیف جسٹس کے ساتھ آئینی عدالت کے جج بھی اس کے رکن ہوں گے۔

وفاقی وزیر قانون نے کہا کہ آئینی بینچوں کی تشکیل کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو ہو گا، جوڈیشل کمیشن میں چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے چار سینیئر جج ہوں گے، جوڈیشل کمیشن میں اراکین پارلیمنٹ بھی شامل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ترامیم اٹھارویں ترمیم میں ایک وسیع اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ہیں، کابینہ نے جمعیت علمائے اسلام کی ترامیم کو ووٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسپیکر قومی اسمبلی غیر مسلموں کے ایک نمائندے کو بھی تجویز کریں گے۔

جے یو آئی کے مولانا عطا الرحمان کے کہنے پر سینیٹ اجلاس میں نماز کا وقفہ بھی کیا گیا اور نماز کے وقفے کے بعد وزیرقانون نے آئینی ترمیم کے مزید نکات پیش کردیے۔

عظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آئینی بیںچز کا تقرر بھی یہ جوڈیشل کمیشن کرے گا، یہ ایک زیرالتوا ایجنڈا تھا، جس پر چیئرمین پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے متحرک کردار ادا کیا اور اس حوالے سے کئی اسٹیک ہولڈرز سے بات ہوئی۔

اس حوالے پراپیگنڈہ کیا گیا کہ موجودہ چیف جسٹس کو رکھنے کے لیے کیا جارہا ہے حالانکہ حقیقت اس کے برعکس تھی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مجھے آفیشلی ملاقات میں منع کردیا تھا اور کہا تھا کہ جو بھی آئینی ترمیم لاگو ہوگی وہ میرے بعد ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک چیف جسٹس نے سوموٹو کے دروازے کھول دیے، ہماری عدالت عظمیٰ نے کروڑوں پاکستانیوں کے منتخب وزرائے اعظم کو گھر بھجوایا، قائدمسلم لیگ (ن) بھی اس کا شکار ہوئے اور چئیرمین سینٹ آپ بھی اس کا نشانہ بنے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ وزیراعظم کو نکالنے کا آئینی طریقہ کار موجود ہے اور ہم نے یہ طریقہ اپنایا ہے، جس پر پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے بھی کہا تھا آئینی بینچز تشکیل دیے جائیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور اب آئینی بینچز کی تشکیل کی جا رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کی تقرری اور ان کے عہدے کا معیاد تین سال کے لیے ہوگی، تقرر تین سینئر موسٹ ججوں میں سے ایک کو لیا جائے گا، چیف جسٹس کا معیاد تین سال اور سنیارٹی لسٹ پر تین سنیئر ججز میں سے ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس کا تقرر 12 رکنی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کرے گی، پارلیمانی کمیٹی دو تہائی اکثریت سے چیف جسٹس کے نام پر اتفاق کرے گی، چیف جسٹس پاکستان کی تقرری بھی سنئیر موسٹ کی بجائے تین سنئیر موسٹ ججوں میں سے ہوگا، چیف جسٹس کی تقرری کے لیے وزیراعظم نے اپنا اختیار دیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کمیٹی جو اکثریت سے فیصلہ کرے گی اس کا نام وزیراعظم بھجوا دیں گے، پارلیمانی کمیٹی کا نام وزیر اعظم کی جانب سے صدر مملکت کو ارسال کریں گے۔

وزیرقانون نے کہا کہ آئین میں آرٹیکل 9اے کو شامل کیا گیا ہے، جمعیت علمائے اسلام نے 5 ترامیم دی ہیں اور کامران مرتضیٰ وہ ایوان میں پیش کریں گے، ماحولیاتی تحفظ کے لیے 9اے آرٹیکل کا اضافہ کیا گیا ہے، ہر شخص کو صاف ستھری آب وہوا میں رہنے کا حق ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججوں کا تقرر بھی جوڈیشل کمیشن کرے گا، اسلامی نظریاتی کونسل ربا کے حوالے سے پانچ تجاویز انہوں نے دی ہیں، ایوان سے استدعا ہے اچھی نیت سے کام شروع کیا تھا، مولانا فضل الرحمان کے شکر گزار ہیں بات چیت کے بعد انہوں نے اتفاق کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں عام آدمی کو جلد اور سستا انصاف فراہم کرنے کے لیے یہ کام کیاہے، وزیراعظم نے اپنے کچھ اختیارات چھوڑے ہیں۔