اسلام آباد: چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ کیا پارلیمنٹ، عدلیہ اور میڈیا میں گینگسٹر ازم سے فیصلہ ہونگے؟
سپریم کورٹ میں مارگلہ ہلز نیشنل پارک ایریا میں رہائشی سرگرمیوں اور توہین عدالت کیس کی سماعت ہوئی۔
عدالت نے نجی ریسٹورنٹ کے مالک لقمان علی افضل کیخلاف توہین عدالت نوٹس واپس لے لیا۔ سپریم کورٹ نے مارگلہ ہلز میں غیر عمارتیں گرانے کیخلاف حکم امتناع دینے والے جج کا معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ کو بھجواتے ہوئے ہدایت کی کہ اسلام آباد ہائیکورٹ دیکھے کیا اس معاملہ پر کوئی ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کمال ہے سول جج سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل در آمد روک رہے ہیں، کیا سول جج نے حکم امتناع دیکر توہین عدالت کی، اس قسم کے ججز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے۔
جسٹس شاہد بلال نے کہا کہ جج انعام اللہ نے دعوے پر حکم امتناع جاری کردیا حالانکہ دعوے کی کورٹ فیس جمع نہیں ہوئی تھی اور دعوی کورٹ فیس ادائیگی کے بغیر قابل سماعت نہیں تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سول جج کو کیسے معلوم ہوا کہ درخواست گزار عجب گل درجہ اے کا ٹھیکیدار ہے، جج کو پہلے دیکھنا چاہیے دعوی پر ریلیف بنتا بھی ہے یا نہیں، بظاہر حکم امتناع عدالتی احکامات کی نفی کرنے کیلئے جاری کیا گیا۔
ریسٹورینٹ وکیل نے کہا کہ ہم نے متعلقہ جگہ کا قبضہ دیدیا جگہ خالی کردی، جس دعوے پر ریسٹورنٹ عمارت گرانے کا حکم امتناع دیا گیا وہ 2 اکتوبر کو واپس لے لیا گیا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آئین کے تحت ایگزیکٹو اور عدلیہ سپریم کورٹ کا حکم ماننے کے پابند ہیں، کیا سوشل میڈیا اداروں اور ججز کو گالیاں دینے کیلئے ہیں، کیا مارگلہ ہلز واگزار زمین ججز کی ذاتی زمین ہے، کہا گیا کہ ریسٹورنٹ خالی کرانے سے ملازم بے روز گار ہو گئے، پھر جنگل کو لکڑیاں کاٹنے والوں کو دیدیں، لکڑیاں کاٹنے والوں کا کاروبار چل نکلے گا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا مارگلہ ہلز میں کمر شل سرگرمیوں کا معاملہ کسی میڈیا یا پارلیمنٹ میں اٹھایا گیا، توپوں کی رخ ججز کی طرف کر دیا جاتا ہے، ہمارا حکم غلط ہے تو اس پر اٹیک کریں، مگر یہاں آرڈر پر اٹیک کی بجائے اداروں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہاں ٹائمنگ کی بات کی جاتی ہے، بتا دیا کریں فلاں کیس کب اور کس بینچ کے سامنے لگنا ہے، انتخابات کا فیصلہ 13 دن میں دیا، انتخابات کرانے کے فیصلہ پر کسی نے گالی نہیں دی، انتخابات کیس میں کسی نے ٹائمنگ کا سوال نہیں اٹھایا، سوشل میڈیا لائیکس اور ڈسلائیکس کیلئے اداروں سے کھیلا جا رہا ہے، بڑے بڑے تھمب نیل بنائے جاتے ہیں۔
وکیل ریسٹورنٹ احسن بھون نے استدعا کی کہ 63 اے نظر ثانی سننے کی کئی درخواستیں کی، 63 اے نظر ثانی ڈھائی سال کے بعد سماعت کیلئے مقرر ہوئیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو ریفرنس زیر التواء پڑا رہا کسی نے نہیں سنا، کیا آگے پارلیمنٹ عدلیہ اور میڈیا میں گینگسٹر ازم سے فیصلہ ہونگے؟
ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختواہ شاہ فیصل نے کہا کہ ڈائنو ویلی کی ملکیت بھی لقمان علی افضل کی ہے۔ عدالت نے ڈائنو ویلی کے مالک لقمان علی افضل کو نوٹس جاری کردیا۔
وکیل عمر گیلانی نے دلائل دیے کہ نیشنل پارک میں نارتھ ریج ہاؤسنگ سوسائٹی ہے، سی ڈی اے کی اپنی رپورٹ کہتی ہے کہ یہ ہاؤسنگ سوسائٹی غیر قانونی ہے، کہا جاتا ہے سوسائٹی کے مالک کا ایک سابق ہائی آفیشل کیساتھ تعلق ہے، بڑے پاور فل لوگ ملوث ہیں، کہا جاتا ہے کہ نارتھ اریج ہاؤسنگ سوسائٹی کے مالک کا تعلق فیض حمید سے تھا۔
عدالت نے نارتھ رینج ہاؤسنگ سوسائٹی کے معاملے پر سی ڈی اے اور چیف کمشنر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ہاؤسنگ سوسائٹی کے ملکیتی دستاویزات اور بلڈنگ اپروول کی تفصیلات بھی طلب کرلیں اور کیس کی سماعت ایک ہفتے تک کیلئے ملتوی کردی۔