سندھ بھر میں مچھروں کا راج

کراچی: شہر قائد سمیت سندھ بھر میں مچھروں کی بہتات ہو گئی جب کہ حکومتی غفلت کے سبب صوبےبھر میں ڈینگی، چکن گونیا اور ملیریا کے امراض بڑھتے جا رہے ہیں۔

بارشوں کے بعد حکومتی اداروں کی جانب سے نکاسی آب اور جراثیم کش اسپرے کے ناکافی اقدامات کی وجہ سے مچھروں کی تعداد میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی،ملیریا اور چکن گونیا کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے، بخار کی شدت اور جاڑے کی کپکپاہٹ سے متاثرہ فرد کا جسم نڈھال ہوجاتا ہے،سر اور جسم میں اٹھنے والے درد کے ساتھ ساتھ آنکھوں کے پیچھے تکلیف اور متلی و قے مریض کی چیخیں نکال دیتی ہے۔

ڈینگی ،ملیریا اور چکن گونیا کی علامات ایک دوسرے سے مماثلت رکھتی ہیں۔ ڈینگی اور چکن گونیا کا مچھر صاف پانی میں افزائش پاتے ہیں، جب کہ ملیریا کے مچھروں کی افزائش گندے پانی میں ہوتی ہے۔ ڈینگی میں متاثر فرد کے جسم میں پلیٹ لٹس کم ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اندرونی یا بیرونی طور پر خون بھی بہتا ہے، لیکن چکن گونیا میں متاثرہ فرد کے پلیٹ لٹس کم نہیں ہوتے۔چکن گونیا کا شکار ہڈیوں اور جوڑوں میں ڈینگی سے زیادہ درد محسوس کرتا ہے۔

ملیریا کا مریض ایک ہفتے سے ایک ماہ،ڈینگی 10 سے 15 دن جب کہ چکن گونیا کا 3 ہفتوں میں بہتری محسوس کرتا ہے۔ ڈینگی، ملیریا، اور چکن گونیا کے مریضوں کے لیے دن کا وقت تو کسی نہ کسی طرح گزارا جا سکتا ہے، لیکن جیسے ہی رات کا اندھیرا چھاتا ہے، یہ بیماریاں شدت اختیار کرلیتی ہیں۔ مریض دن میں اردگرد کی مصروفیات میں خود کو الجھا کر کچھ نہ کچھ آرام محسوس کر لیتے ہیں، مگر رات کا سناٹا، بڑھتی ہوئی جسمانی تکلیف اور تھکن انہیں بے چین کر دیتی ہے۔

ان بیماریوں کی علامات رات میں زیادہ واضح ہو جاتی ہیں، جس کی وجہ سے نیند بھی پوری نہیں ہوتی۔ دن کے مقابلے میں رات مریض کے لیے ایک چیلنج بن جاتی ہے۔ جب درد اور بے چینی حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے اور سکون کے لمحات ایک خواب بن کر رہ جاتے ہیں۔

کراچی سمیت سندھ بھر میں ڈینگی کے کیسز میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کراچی میں سب سے زیادہ ڈینگی کیسز رپورٹ ہورہے ہیں جب کہ اندرون سندھ میں ملیریا کے مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔

کراچی میں چکن گونیا کے کیسز بھی بڑھ رہے ہیں، تاہم مہنگے ٹیسٹ کی وجہ سے شہری اس مرض کی تشخیص نہیں کروا پا رہے، جس کی وجہ سے مریض صرف علامات یا سی بی سی ٹیسٹ کے ذریعے ہی علاج کروا رہے ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چکن گونیا کے کیسز کا صحیح ڈیٹا نہ ہونے کی وجہ سے صورتحال کی سنگینی کا درست اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ڈاکٹرز کے مطابق کراچی میں متعدد مریض چکن گونیا کی علامات کے ساتھ اسپتالوں میں آ رہے ہیں، تاہم باضابطہ ٹیسٹ نہ ہونے کی وجہ سے تعداد کم رپورٹ ہو رہی ہے۔

سول اسپتال کے ایمرجنسی انچارج ڈاکٹر عمران سرور نے کہا کہ سول اسپتال میں 40 سے 50 مریض مجموعی طور ڈینگی ملیریا اور چکن گونیا سے متاثر آرہے ہیں،اس بار چکن گونیا کے کیسز زیادہ رپورٹ ہورہے ہیں،جبکہ ڈینگی سے مریضوں کے پلیٹ لیٹس کم ہورہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک نارمل انسان میں ڈیڑھ لاکھ یونٹس پلیٹ لٹس ہوتے ہیں،لیکن ڈینگی کے سبب مریضوں کے پلیٹ لٹس 20 ہزار یونٹس تک پہنچ جاتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں اندرونی اور بیرونی طور پر جون بہتا ہے۔ ہم سنگل یونٹ پلیٹ لٹس لگاتے ہیں تو ایسے مریض میں بمشکل 2 ہزار یونٹ اضافہ ہوتا ہے، حالانکہ سنگل یونٹ 5 ہزار پلیٹ لٹس بڑھانے کی صلاحیت رکھتا ہے،لیکن میگا یونٹ پلیٹ لٹس 50 ہزار یونٹ بڑھاسکتا ہے۔

جناح اسپتال کراچی کے جنرل فزیشن ڈاکٹر فیصل جاوید نے کہا کہ جناح اسپتال میں روزانہ کی بنیاد پر 50 مریض ڈینگی، ملیریا اور چکن گونیا کی علامات کے ساتھ آرہے ہیں۔سندھ بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے سیکرٹری ڈاکٹر در نار جمال نے کہا کہ ہم نے بارشوں سے قبل ہی بلڈ بینکس کو خطوط لکھ دیے تھے کیوں کہ پلیٹ لٹس اسٹور نہیں ہوسکتے لیکن ان کی کٹس جو کہ تقریبا 40 ہزار کی آتی ہے،ان کٹس سمیٹ تمام کیمیکل کو اسٹور رکھیں۔ ابھی تک پلیٹ لٹس کی کمی کی کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔

متعلقہ ادارے دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی جانب سے بلاتفریق فیومیگیشن کا عمل جاری ہے،مگر شہریوں نے شکوہ کیا کہ مچھر سے بچاؤ کے انتظامات محض دستاویزات تک ہی محدود ہیں۔ کسی بھی علاقے میں عملی طور پر جراثیم کش اسپرے مہم ہوتی نہیں دیکھی گئی۔