کپاس کی مجموعی پیداوار میں غیر معمولی کمی، درآمدی معاہدے مزید تیز

کراچی: کپاس کی مجموعی قومی پیداوار میں غیر معمولی کمی سے کاٹن سیکٹر میں تشویش کی لہر پیدا ہوگئی ہے، ٹیکسٹائل ملز مالکان نے روئی کے درآمدی معاہدوں میں تیزی کر دی ہے۔

کراپ رپورٹنگ سینٹر پنجاب اور پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کے مطابق پنجاب میں کپاس کے پیداواری اعداد و شمار میں غیر معمولی فرق ریکارڈ کیا گیا ہے۔

پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری ہونے والے پیداواری اعدادو شمار کے مطابق 15اگست 2024 تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں 49فیصد کی کمی سے مجموعی طور پر 10لاکھ 75 ہزار روئی کی گانٹھوں کے مساوی پھٹی کی ترسیل ہوئی ہے جبکہ پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں 38فیصد کی کمی سے 3لاکھ 92ہزار 800 گانٹھیں اور سندھ میں 54فیصد کمی سے 6لاکھ 82ہزار 300 گانٹھوں کی مساوی پھٹی کی ترسیل ہوئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق زیر تبصرہ مدت میں ٹیکسٹائل ملوں نے 10لاکھ 6ہزار روئی کی گانٹھوں کی خریداری کی ہے جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران ٹیکسٹائل ملز نے 18لاکھ60ہزار بیلز کی خریداری کی تھی۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ کپاس کی مجموعی قومی پیداوار میں ریکارڈ کمی کی بڑی وجوہات میں منفی موسمی حالات، مہنگے ترین زرعی مداخل، کپاس کی کم رقبے پر کاشت اور کسانوں خاص طور پر سندھ کے کسانوں کی غیر معیاری بیج کا استعمال ہے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں کپاس کی پیداوار اور معیار میں غیر متوقع کمی کے باعث پاکستانی ٹیکسٹائل ملز نے بیرونی ممالک جن میں امریکا برازیل تنزانیہ اور افغانستان شامل ہیں کے ساتھ روئی کے درآمدی معاہدے کرنے شروع کردیئے ہیں اور یہ اطلاعات بھی زیرگردش ہیں کہ پاکستانی ملز اب تک روئی کی تقریباً 10لاکھ کے درآمدی معاہدے کرچکے ہیں ۔

امریکی کاٹن ایکسپورٹ رپورٹ کے مطابق 8اگست کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران پاکستان امریکا سے کپاس خریدنے والا سب سے بڑا خریدار تھا جس نے اس ہفتے کے دوران امریکا سے ریکارڈ 47 ہزار 200روئی کی گانٹھوں کی بکنگ کرائی ہے جبکہ چین نے اس ہفتے کے دوران امریکا سے روئی کی خریداری ہی نہیں کی ہے۔

کراپ رپورٹنگ سینٹر پنجاب کی جنب سے جاری ہونے والی رپورٹ کے مطابق 15اگست تک پنجاب میں روئی کی 6لاکھ 36ہزار گانٹھوں کی پیداوار ہوئی ہے جو حیران کن طور پر پی سی جی اے کے جاری ہونے والے اعداد وشمار کے مقابلے میں ریکارڈ 62فیصد زائد ہیں۔

چیئرمین کاٹن جنرز فورم نے بتایا کہ مہنگی توانائی، زائد شرح سود اور بھاری ٹیکسز کے بعد انٹرنیٹ کی اسپیڈ متاثر ہونے سے ٹیکسٹائل برآمد کنندگان کو بڑے مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جس سے ملکی برآمدات بھی متاثر ہو رہی ہیں۔