Editor Ke Qalam SE

صحابہ کرامؓ کے باہمی تنازعات کے بارے میں ائمہ اہل سنت کے ارشادات

مولانا زاہدالراشدی
دوسری قسط:

یہ چند حوالے معتمد ائمہ اہل السنہ والجماعہ کی عبارات سے پیش کیے گئے ہیں جن پر غور کرنے سے مندرجہ ذیل تین امور روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتے ہیں:

مشاجرات کی بنیاد خلافت کا مسئلہ نہیں تھا اور نہ حضرت معاویہؓ اس وقت خلافت کے دعویدار تھے۔ مشاجرات کی بنیاد قاتلینِ عثمان کو حضرت عثمانؓ کے وارثین کے سپرد کرنے کا سوال بھی نہیں تھا، بلکہ خلیفہ وقت حضرت علیؓ قاتلینِ عثمان کو حضرت معاویہؓ کے مطالبہ کے مطابق ورثاء کے سپرد کرنے کو تیار تھے اور انہیں نفسِ سپردگی پر کسی قسم کا کوئی اعتراض نہیں تھا۔اصل تنازع اس سپردگی میں تعجیل اور تاخیر کے سوال پر تھا۔ حضرت معاویہؓ تاخیر کو ناروا سمجھتے ہوئے تعجیل کا مطالبہ کر رہے تھے اور حضرت علیؓ تعجیل کو خلافِ مصلحت خیال کر کے تاخیر کو زیادہ صحیح قرار دیتے تھے۔جب ائمہ اہل السنہ و الجماعہ کے ارشادات کی روشنی میں قاتلینِ عثمان کو ورثائے عثمانؓ کے سپرد کرنے کا مسئلہ صحابہ کرام کے درمیان ایک متفق علیہ امر تھا اور حضرت علیؓ خلیفہ وقت کو بھی سپردگی پر اعتراض نہیں تھا، بلکہ تنازع صرف اور صرف تعجیل اور تاخیر کے سوال پر تھا، تو بعض حضرات کی طرف سے حضرت معاویہؓ کے اس مطالبہ کو غیر آئینی جاہلیت کے قبائلی نظام سے اشبہ اور غیر اسلامی مطالبہ قرار دینے کا کوئی جواز باقی نہیں رہ جاتا۔ اس دعویٰ کو کہ حضرت معاویہؓ کو یہ مطالبہ کرنے کا کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ قاتلینِ عثمان کو حضرت عثمانؓ کے ورثاء کے سپرد کر دیا جائے، اگر ان کے ہاں کوئی وقعت حاصل ہو تو ہو، بہرحال ائمہ اہل السنت والجماعت ان کے اس دعویٰ کو ماننے کے لیے قطعاً تیار نہیں کیونکہ جو مطالبہ تمام صحابہ کا متفق علیہ ہے اور خلافتِ راشدہ کے منصب جلیلہ پر فائز سیدنا علیؓ بھی نفسِ مطالبہ کو مانتے ہیں، تو اس مطالبہ کو غیر آئینی اور جاہلیت کے قبائلی نظام سے اشبہ قرار دینے کی بات قابلِ قبول نہیں ہے۔

الغرض مشاجراتِ صحابہؓ میں ما بہ النزاع نہ تو خلافت کا مسئلہ تھا، جیسا کہ امام شعرانیؒ کے بقول بعض لوگوں کو خواہ مخوا اس کا وہم ہوا ہے اور نہ حضرت عثمان ؓکے قاتلوں کو ان کے ورثاء کے سپرد کرنے کا سوال تھا، کیونکہ یہ مطالبہ متفقہ علیہ تھا اور ائمہ عقائد کی تمام کتابوں میں مابہ النزاع ”تسلیم قتلۃ عثمان الی الورثاء“ کو نہیں بلکہ ”تاخیر تسلیم“ اور ”استعجال تسلیم“ کو قرار دیا گیا ہے جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ ”نفسِ تسلیم“ میں اختلاف نہیں تھا بلکہ تعجیل اور تاخیر میں اور سپردگی کے وقت میں اختلاف تھا۔ قصاص کا مسئلہ قرآن پاک کا منصوص مسئلہ ہے، بھلا حضرت علی رضی اللہ عنہ (یا) اور کوئی صحابی اس سے انکار کر سکتا تھا؟ اختلافِ رائے صرف یہ تھا کہ فی الحال ان قاتلوں کو حضرت عثمانؓ کے وارثوں کے سپرد کر دیا جائے یا مصلحتاً کچھ عرصہ بعد جبکہ امرِ خلافت مضبوط ہو جائے۔

(۲) فریقین کی اصولی حیثیت
جب اتنی بات واضح ہو گئی کہ مابہ النزاع صرف قاتلینِ عثمان کی ورثاء کو سپردگی میں تعجیل و تاخیر کا سوال تھا، تو اب ہم نے ائمہ کرام کے ارشادات کی روشنی میں یہ دیکھنا ہے (کہ) ان دونوں فریقوں کی اصولی حیثیت کیا تھی؟(۱) امام اہل السنہ والجماعہ حضرت الامام ابو الحسن الاشعریؒ فرماتے ہیں کہ:”جو کچھ واقعات حضرت علی، حضرت زبیر اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کے درمیان واقع ہوئے ہیں ان کی بنیاد اجتہاد اور تاویل پر تھی، سب کے سب اہلِ اجتہاد تھے اور ان کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور شہادت کی خوشخبری دی تھی جو اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ وہ سب کے سب اپنی اپنی جگہ اجتہاد میں حق پر تھے۔اور اسی طرح جو واقعات حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان واقع ہوئے ہیں وہ بھی اجتہاد اور تاویل پر مبنی ہیں اور سارے صحابہ کرام مامون ہیں جن کے دین پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام کی تعریف و ثنا کی ہے اور ہم کو ان کی توقیر و تعظیم کرنے کا، ان سے محبت رکھنے کا اور ان کے بارے میں ہر اس بات سے براء ت ظاہر کرنے کا حکم دیا ہے جس سے ان میں سے کسی ایک کی تنقیص ہوتی ہو۔“ (کتاب الابان للاشعری ص ۸۸)

(۲) امام عبد الوہاب شعرانی فرماتے ہیں کہ: ”صحابہ کرام سب کے سب باتفاق اہل السنہ والجماعہ عادل ہیں۔ جنگِ جمل و صفین واقعہ سے قبل بھی وہ عادل تھے اور بعد میں بھی عادل ہی رہے۔ یہ اعتقاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ان کے آپس کے جھگڑے اجتہاد کے سبب سے تھے، کیونکہ مختلف فیہ امور اجتہادی مسائل تھے اور دونوں فریقوں نے اپنے اپنے اجتہاد پر عمل کیا۔ اب ”کل مجتہد مصیب“ (ہر مجتہد حق پر ہوتا ہے) کا قاعدہ مدنظر رکھ کر سب کو حق پر قرار دیا جائے۔ یا ”المصیب واحد والمخطی معذور بل ماجور“ (درست فیصلہ ایک کا ہوتا ہے اور دوسرا معذور بلکہ ماجور ہوتا ہے) کے قاعدہ کے پیش نظر ایک فریق کو حق پر اور دوسرے کو خطا پر سمجھا جائے۔ اس سے عدالتِ صحابہ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔“ (الیواقیت والجواہر)

(۳) حضرت امام ربانی مجدد الف ثانیؒ کا ارشاد ہے کہ:”شیخ ابو شکور سالمی نے اپنی کتاب ”تمہید“ میں تصریح کی ہے کہ حضرت معاویہؓ اور صحابہ کرامؓ میں سے ان کے وہ رفقاء جو جنگ میں ان کے ساتھ تھے، اگرچہ خطا پر تھے، لیکن ان کی یہ خطا اجتہادی تھی اور ابن حجر نے ”الصواعق المحرقہ“ میں لکھا ہے کہ حضرت علی ؓسے حضرت معاویہ ؓکا نزاع اجتہاد پر مبنی تھا اور اس کو انہوں نے اہل السنہ والجماعہ کے عقائد میں شمار کیا ہے۔“ (مکتوبات دفتر اول مکتوب ص 251)ایک اور مقام پر حضرت مجدد صاحب فرماتے ہیں کہ:”جمہور اہل السنہ و الجماعہ کا دلائل کی روشنی میں یہ عقیدہ ہے کہ مشاجراتِ صحابہ میں حق حضرت علیؓ کے ساتھ تھا اور ان کے مخالفین نے خطا کا راستہ اپنایا تھا لیکن چونکہ یہ خطا اجتہادی ہے اس لیے ملامت اور اعتراض سے مبرا اور بالاتر ہے اور اہلسنہ والجماعہ محاربینِ علی کے حق میں صرف خطاء کے لفظ کا اطلاق کرتے ہیں، کیونکہ اس میں تاویل کی گنجائش ہے، اس کے بغیر ان پر کسی لفظ کا اطلاق روا نہیں رکھتے۔“ (مکتوبات حصہ ششم دفتر دوم ص 79)

(۴) امام شرف الدین نوویؒ شارح مسلم شریف المتوفی ۶۷۶ھ فرماتے ہیں کہ ”اور جو محاربات صحابہ کرامؓ کے دور میں رونما ہوئے ان میں ہر گروہ کے لیے ایسے شبہات موجود تھے جن کی بنا پر وہ گروہ اپنے آپ کو حق پر کہتا تھا اور سارے کے سارے عادل اور محاربات کے سلسلہ میں اپنے اپنے طرز عمل کے مؤدل تھے اور ان محاربات میں سے کوئی چیز بھی ان صحابہ کرام کی عدالت پر اثر انداز نہیں ہوتی، کیونکہ وہ سارے مجتہد تھے جنہوں نے اجتہادی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا تھا۔“ (شرح مسلم ص ۲۷۳ ج ۳)ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے ان ارشادات سے حسبِ ذیل امور واضح ہوتے ہیں کہ اہل السنہ والجماعہ کے عقیدہ کے مطابق حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کو ان کے ورثاء کے سپرد کرنے میں تاخیر یا تعجیل کا مسئلہ ایک اجتہادی معاملہ تھا۔اس اجتہادی مسئلہ میں حضرت علیؓ نے اپنے اجتہاد کے مطابق ”تاخیر تسلیم“ کو اصوب سمجھا اور حضرت معاویہؓ نے اپنے اجتہاد کی روشنی میں ”تعجیل تسلیم“ کو مناسب خیال فرمایا۔دونوں بزرگوں کے پاس اپنے اپنے اجتہاد کو صحیح سمجھنے کے لیے شبہات کی کوئی نہ کوئی بنیاد ضرور موجود تھی، جس کی بنا پر ہر گروہ اپنے آپ کو حق پر کہتا تھا۔اس اجتہادی اختلاف میں حضرت علیؓ کا اجتہاد اپنے نتیجہ کے لحاظ سے صواب اور حضرت معاویہؓ کا اجتہاد خطاء تھا۔اس اجتہادی اختلاف اور حضرت معاویہؓ اور ان کے ساتھیوں کی خطاء اجتہادی کے سلسلہ میں لفظ خطاء سے زیادہ اور کوئی لفظ استعمال نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ان کو اس خطاء پر ملامت کی جا سکتی ہے اور نہ ان پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔الغرض اہل السنہ والجماعہ کے عقیدہ کی رو سے جنگِ جمل کی ابتدا سے واقعہ تحکیم تک جو کچھ واقعات رونما ہوئے ان کی بنیاد اجتہاد پر تھی۔ اور اجتہادی مسئلہ میں اگر دو مجتہد مختلف رائے قائم کریں تو اپنے اپنے اجتہاد کی رو سے تو وہ دونوں حق پر ہوتے ہیں، لیکن نفس الامر میں ایک حق پر ہوتا ہے اور دوسرا خطاء پر، لیکن یہ خطاء بھی قابلِ ملامت نہیں ہوتی بلکہ اس پر اللہ تعالیٰ اجر عطا فرماتے ہیں۔
اس لیے صحابہ کرام میں سے اجتہادی مسائل میں خطاء کر جانے والوں پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں، جیسے بعد کے چاروں امامانِ فقہ حضرت ابوحنیفہ، حضرت امام شافعی، حضرت امام احمد بن حنبل اور حضرت امام مالک رحمہم اللہ میں بیسیوں مسائل میں اختلاف ہے، مگر چونکہ یہ اہلِ اجتہاد تھے اس لیے چاروں مذاہب کو اصولاً حق پر سمجھا جاتا ہے۔ ایک کو حسنِ ظن کی وجہ سے حق پر سمجھا جا کر اس کی پیروی کی جاتی ہے، دوسرے کو اس کے اجتہادی خطاء پر ملامت نہیں کیا جاتا بلکہ مستحقِ اجر قرار دیا جاتا ہے۔

(جاری ہے)