Dr Aafia Jail in US

ڈاکٹرعافیہ کی رہائی کے لیے ممکنہ حکومتی اقدامات

ضیا ء الرحمان ضیاء

ایم پی اے باسمہ چودھری نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے ایک اہم قرارداد جمع کرائی۔ قرارداد کا خلاصہ یہ ہے کہ ڈاکٹر عافیہ جو امریکی جیل میں قید ہیں ایک پاکستانی شہری ہیں اور ان کی جان اور عزت کی حفاظت ریاست پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ قرارداد میں دعویٰ کیا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ کو جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا ہے اور انہیں قانونی حقوق سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ قرارداد میں مطالبہ کیا گیا کہ ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بھرپور عملی اقدامات کیے جائیں اور ان کی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر انہیں رہا کیا جائے۔ قرار داد میں وزیراعظم پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ امریکا سے تحریری طور پر صدارتی معافی اور ہمدردی کی بنیاد پر رہائی کے لیے مطالبہ کریں اور فوری طور پر میڈیکل ٹیم کی عافیہ سے ملاقات کے لیے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سے رابطہ کریں۔

اس سلسلے میں حکومت پاکستان کیا ممکنہ اقدامات کر سکتی ہے، اس کے لیے چند تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ حکومت پاکستان امریکی حکومت کے ساتھ اعلیٰ سطحی سفارتی مذاکرات کر سکتی ہے۔ یہ مذاکرات وزارت خارجہ کے ذریعے کیے جاسکتے ہیں جس میں پاکستانی سفیر اور دیگر اعلیٰ سفارتی عہدیدار شامل ہوں گے۔ اس معاملے کو انسانی حقوق اور انصاف کے تناظر میں پیش کیا جا سکتا ہے ۔ پاکستانی حکومت بین الاقوامی قانونی ماہرین کی خدمات حاصل کر سکتی ہے تاکہ امریکی عدالتوں میں ڈاکٹر عافیہ کے حق میں کیس دوبارہ کھولا جا سکے۔ قانونی معاونت فراہم کرنے کے لیے مختلف قانونی فاؤنڈیشنز اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے بھی تعاون لیا جاسکتا ہے۔ حکومت پاکستان بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن سے رابطہ کر کے ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے بین الاقوامی دباؤ بنا سکتی ہے۔

اقوام متحدہ اور دیگر بین الاقوامی فورمز پر ڈاکٹر عافیہ کی صورت حال کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔ پاکستانی وفود بین الاقوامی انسانی حقوق کی کانفرنسز میں شرکت کر کے اس معاملے کو اٹھا سکتے ہیں۔میڈیا اور عوامی آگاہی مہمات کے ذریعے ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو اُجاگر کیا جا سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کمپینزاور پریس کانفرنسزکے ذریعے عالمی برادری کی توجہ اس مسئلے کی طرف مبذول کرائی جا سکتی ہے۔قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے پر بات چیت کی جا سکتی ہے۔ قیدیوں کا تبادلہ بین الاقوامی تعلقات میں ایک معمول کا عمل ہے اور ماضی میں مختلف ممالک نے اپنے شہریوں کی رہائی کے لیے ایسا کیا ہے۔ پاکستان اور امریکا کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کا دو طرفہ معاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس معاہدے میں قیدیوں کی شناخت، تبادلے کی شرائط اور دیگر قانونی معاملات کو شامل کیا جاتا ہے۔ معاہدے کے تحت قیدیوں کو قانونی طریقے سے تبادلہ کیا جاتا ہے، جس میں دونوں ممالک کے قانونی سسٹم کی مطابقت ضروری ہے۔

گزشتہ چند برس کے دوران امریکا نے کئی ممالک کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے معاہدات کیے ہیں جن میں سے اہم یہ ہیں۔ 2016ء میں امریکا اور ایران کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا تھا جس میں ایران نے پانچ امریکی شہریوں کو رہا کیا تھا اور امریکا نے سات ایرانی قیدیوں کو آزاد کیا تھا۔ 2010ء میں امریکا اور روس کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ ہوا تھا جس میں دونوں ممالک نے جاسوسی کے الزام میں گرفتار قیدیوں کا تبادلہ کیا تھا۔ حتیٰ کہ 2014ء میں امریکی حکومت نے افغان طالبان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت پانچ طالبان قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ یہ قیدی گوانتانا موبے میں قید تھے۔ ان کی رہائی کے بدلے میں طالبان نے امریکی فوجی بوبرگڈال کو رہا کیا، جو تقریباً پانچ سال تک طالبان کی قید میں رہا تھا۔ اب پاکستان میں قید امریکی شہریوں کی تفصیلات عمومی طور پر دستیاب نہیں ہیں لیکن یہ ممکن ہے کہ حکومت پاکستان کسی ایسے قیدی کی شناخت کرے جو امریکی حکومت کے لیے اہم ہو۔جیسے 2011ء میں ریمنڈ ڈیوس جو کہ ایک امریکی کنٹریکٹر تھا، کو لاہور میں دو پاکستانی شہریوں کے قتل کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ بعد میں خون بہا کی ادائیگی کے بعد اسے رہا کیا گیا۔

پاکستانی حکومت کے اعلیٰ عہدیدار، بشمول وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اپنے امریکی ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتوں میں اس معاملے کو اٹھا سکتے ہیں۔ سیاسی دباؤ ڈال کر اس مسئلے کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔عالمی سطح پر پُرامن مظاہرے اور احتجاج منظم کیے جاسکتے ہیں تاکہ ڈاکٹر عافیہ کے حق میں بین الاقوامی دباؤ بنایا جا سکے۔ پاکستانی سفارت خانوں کے ذریعے مختلف ممالک میں مقامی کمیونٹیز کو بھی شامل کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح پاکستانی حکومت میڈیا کے ذریعے عوامی آگاہی مہمات چلا سکتی ہے تاکہ ڈاکٹر عافیہ کے کیس کو بین الاقوامی سطح پر اُجاگر کیا جا سکے۔