چاول کے برآمدی سیکٹر پر ٹیکس کا اثربمپر فصل کی تیاری کرنے والے کسانوں پر پڑے گا، ایسوسی ایشن

رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان نے دعویٰ کیا ہے کہ رواں مالی سال کے دوران چاول 78فیصد کے اضافے سے 3ارب 88کروڑ ڈالر مالیت کا 5.9 ملین ٹن، بالترتیب 150 سے 200 فیصد کے اضافے سے مجموعی طور پر 800 ملین ڈالر مالیت کا تل اور مکئی برآمد کرلیا گیا ہے جبکہ ٹیکس پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔

رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے قائم مقام چئیرمین حسیب علی خان نے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب سے ایسوسی ایشن کے اراکین کے وفد کے ہمراہ ملاقات کی اور انہوں نے بتایا کہ چاول، مکئی اور تل اضافی منافع کے ساتھ کسانوں کے لیے نقد فصل بن کر ابھری ہے۔

انہوں نے کہا کہ برآمد کنندگان نے بیک وارڈ فارم انٹیگریشن میں حصہ لیا ہے جس کی وجہ سے برآمدات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چاول کے برآمدی سیکٹر کو موجودہ فائنل ٹیکس رجیم ایک فیصد سے ہائبرڈ ٹیکس رجیم ایک فیصد کم سے کم ٹیکس اور ایک فیصد ایڈوانس ٹیکس میں تبدیل کرنے پر تشویش کا اظہار کیا۔

اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ ہماری برآمدات کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا اور ایکسپورٹرز کی حوصلہ شکنی کا باعث ہوگا کیونکہ چاول، مکئی اور تل پر پہلے ہی بہت کم منافع ہے جو بمشکل 2 تا 3فیصد ہوتا ہے۔

حسیب علی خان نے کہا کہ اس کو بین الاقوامی کموڈٹی ٹریڈرز کے ساتھ ساتھ مقامی تاجروں کی بیلنس شیٹس سے بھی چیک کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک فیصد ٹیکس آمدنی پر 30فیصد ٹیکس کے مساوی تھا جو کہ موجودہ ٹیکس نظام اور سپر ٹیکس رجیم کے ساتھ اجناس کی آمدنی پر ٹیکس 60 فیصد کی سیلنگ تک پہنچ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایف بی آر کے آڈٹ سے کرپشن، ہراسانی اور کک بیکس کے راستے کھل سکتے ہیں لہٰذا ہم اپنے اراکین اور ایکسپورٹرز کو ایف بی آر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔

قائم مقائم چیئرمین رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن نے کہا کہ چاول، مکئی اور تل کے برآمد کنندگان پریشانی کا شکار ہیں اور وہ صرف ماضی کے طے شدہ برآمدی آرڈرز پورے کررہے ہیں اور ٹیکس آڈٹ اور منافع سے زیادہ ریکوری نوٹسز کے خدشے کی وجہ سے مستقبل کے آرڈرز حاصل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوصلہ شکنی کا بالواسطہ اثر ان کسانوں پر بھی پڑے گا جو چاول کی بمپر 11 ملین ٹن سے زائد کی فصل اور تل کی ساڑھے 3لاکھ ٹن کی فصل کی تیاری کر رہے تھے۔

حسیب علی خان نے کہا کہ اضافی مارک اپ، بجلی کی زائد لاگت اور ایف بی آر آڈٹ کے ساتھ دو فیصد اضافی ٹیکس برآمدات کو غیر یقینی بنائے گا، جس سے نئے مالی سال میں برآمدات ڈھائی ارب ڈالر تک گرسکتی ہیں۔