Court Order

عدل و انصاف وہ جو ہوتا نظر آئے

محمد کوکب جمیل ہاشمی

انصاف کا مفہوم ترازو کے دونوں پلڑوں کا برابر ہونا یا ایک چیز کو اس طرح تقسیم کرنا کہ اس کے دونوں نصف حصے بنا کسی کمی بیشی کے مساوی ہوں۔ دین اسلام نے انسانی سلوک، برتاؤ اور عمل کے میدان میں انصاف اور عدل پہ بہت زور دیا ہے۔ دوسروں کے ساتھ انصاف کرنا دین اسلام کا شرعی تقاضہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی سیرت طیبہ اور سنت مطہرہ کے ذریعے ہمیں زندگی بھر اپنے اور دوسروں کے معاملات میں انصاف سے کام لینے کا تقاضہ کیا ہے۔ یہاں تک کہ جب گائے کی قربانی کی جاتی ہے تو اس کے سات حصے اس طرح تول تول کر حصے داروں کو دیئے جاتے ہیں کہ کسی کے پاس ایک بوٹی یا ہڈی بھی کم یا زیادہ نہ جائے۔ اسی کو انصاف اور عدل کہتے ہیں۔ انصاف کرنا دین اسلام کی روح ہے جو ہر صورت ہمارے کردار کا حصہ ہونی چاہئے۔ جس معاشرے میں انصاف نہیں ہوتا وہاں نا صرف لوگوں کی حق تلفی ہوتی ہے بلکہ معاشرے میں جرائم کی پرورش، فساد، بے ایمانی اور تباہی واقع ہوتی ہے۔

صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں اُن سات اشخاص کا ذکر آیا ہے جو قیامت کے دن عرش الٰہی کے سائے میں ہوں گے۔ ان میں سر فہرست امام عادل کا نام آتا ہے۔ عدل در اصل اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی صفت ہے۔ افسوس ہے کہ ہم دوسروں سے انصاف کی توقع کرتے ہیں لیکن خود دوسرے کے ساتھ انصاف نہیں کرتے۔ اگر معاشرے کے ایک جزو یعنی ایک خاندان پر نظر ڈالیں تو ہمیں اس میں ہونے والی ناانصافیوں کی لمبی فہرست دکھائی دیتی ہے۔ سب سے پہلے ایک شادی شدہ مرد اور عورت کی بات کئے لیتے ہیں۔ دونوں ہی کم یا زیادہ اپنے معاملات میں اعتدال سے کام نہیں لیتے۔ خاوند اپنی بیوی کے حقوق پورے نہیں کرتا۔ اس سے بد ظن رہتا ہے۔ بیوی کو ہر وقت طعن و تشنیع سے پیش آتا ہے۔ بیوی اور بچوں کی جائز حاجات و ضروریات پوری نہیں کرتا اور ہر وقت ناراضی و نفرت کا اظہار کر کے ناحق تکلیف پہنچاتا ہے، جلی کٹی سنا کر دل دکھاتا ہے۔ یہ بات انصاف کی روح کے منافی ہے۔ اسی طرح اگر بیوی اپنے شوہر کی بات نہ مانے، حکم عدولی کرے اور شوہر کے ساتھ جھگڑا کرے تو یہ بات بھی خلاف عدل ہے۔ گھر میں بچوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک نہ کرنا اور ان میں امتیاز و تفریق کرنا بھی نا انصافی ہے۔ عموماً گھروں میں کسی بچے کو لاڈلا اور کسی کو لائق نفرت سمجھا جاتا ہے۔ یہ زیادتی اور انصافی ہے۔

ہمارے معاشرے کا بھی یہی حال ہے۔ ہم کہیں ملازمت کرتے ہیں تو اپنی ڈیوٹی پوری طرح سر انجام نہیں دیتے۔ کام چوری، سستی اور لیت و لعل کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ ہمارے ذمہ جو فرائض ہوتے ہیں ان کی ادائی کو کماحقہ پورا نہیں کرتے۔ اپنا وقت چائے پینے میں ضائع کرکے کاموں کوالتوا میں ڈالتے ہیں۔ یہ اپنے کام اور ملازمت کے ساتھ ناانصافی ہے بلکہ یہ عمل جائز ذریعہ آمدنی کے بھی منافی ہے۔ اگر غور کریں تو ہم اپنے ماتحتوں کے ساتھ بھی بدسلوکی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ انہیں بسا اوقات کمتر سمجھتے ہوئے برے برتاؤ کا نشانہ بناتے ہیں۔ گھروں میں بھی نوکروں اور کام کرنے والیوں کے ساتھ غیرہمدردانہ رویہ رکھتے ہیں۔ انہیں تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ انہیں ان کی پوری تنخواہ ادا نہیں کرتے۔ یہ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ ہم مزدور کی اُجرت اس کا پسینہ خشک ہو نے سی پہلے ادا نہیں کرتے۔ یہ ہمارے عمل کی ایسی خرابی ہے جس کی پکڑ روز قیامت ہوگی۔ زمیں دار کسان کے ساتھ اور وڈیرے رعیت کے ساتھ نااصافی کرتے ہیں۔ ہمارا پورا ملک انصاف کے قتل کے بخار میں مبتلا ہے۔

ہمارے دکاندار خریداروں کے ساتھ بہت نا انصافی کرتے ہیں۔ خریدا ہوا مال ناقص نکل آئے یا کسی اعتبار سے ناپسندیدہ ہو تو اسے واپس لینے یا تبدیل کرنے کے روادار نہیں ہوتے بلکہ خریدار کی تذلیل اور لڑائی جھگڑا کرتے ہیں۔ یہ عمل اسلام کے منافی اور انصاف سے اغماض برتنے کے مترادف ہے۔ تجارتی شعبے میں دیکھا جائے تو دکاندار بد دیانتی اور کم ناپ تول کرتے دکھائی دیتے ہیں یا ملاوٹ شدہ مضر صحت اشیاء خورد و نوش فروخت کرتے ہیں، وہ صارفین کے ساتھ دھوکہ اور نا انصافی کرتے ہیں۔ وہ یقینا سورہئ رحمان کی ان آیات سے واقف ہوں گے کہ(ترجمہ): ”ترازو میں بے اعتدالی نہ کرو اور انصاف کے ساتھ تول قائم کرو اور وزن نہ گھٹاؤ۔“ اس کے باوجود ناپ تول میں بھی کمی کی جاتی ہے۔ کاروباری لوگوں میں سے زیادہ تر دام پورے وصول کرتے ہیں اور مال ناقص و گھٹیا بیچتے ہیں۔ قرآن کریم میں جگہ جگہ انصاف اور عدل کی بات مذکور ہے۔ کہا گیا ہے کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ۔(یتیم کا مال کھانا تو دور کی بات ہے) ناپ تول میں برابری کیا کرو۔ حساب کے ساتھ پورا پورا کرو۔ جب کوئی بات کرو تو عدل و انصاف سے کرو کہ وہ آپ کے قریب ہی کیوں نہ ہو پھر بھی اس سے انصاف کے ساتھ بات کرو۔ (سورۃ المائدہ آیت5) میں فرمایا گیا ہے کہ اے ایمان والو کھڑے ہو جایا کرو اللہ کے واسطے گواہی دینے کو اور کسی قوم کی دشمنی کے باعث انصاف کو ہر گز نہ چھوڑو، عدل کرو کہ یہی بات زیادہ نزدیک ہے تقویٰ سے اور ڈرتے رہو اللہ سے۔ اللہ کو خوب خبر رکھتا ہے جو تم کرتے ہو۔ وہ آپ کے قریب ہی کیوں نہ ہو، پھر بھی اُس سے انصاف کے ساتھ بات کرو.

حکمرانوں کا کام ہے عوام کے ساتھ انصاف کرنا۔ عدالتوں، کچہریوں اور منصفوں کا کام ہے کہ وہ لوگوں کے مقدمات کا غیر جانبدارانہ فیصلہ کریں اور کسی کو بھی محض پسندیدہ ہونے یا شہرت و مقبولیت کی وجہ سے اپنی حمائت اور جانبداری کا مستحق نہ سمجھیں۔ اس کے جرم سے سے صرف نظر نہ کریں۔ یہ انصاف کا پیمانہ نہیں ہے۔ اسلامی نقطہ نگاہ سے یہ بات غیرجانبدارانہ انصاف کے منافی ہے۔ پولیس کو بھی عدل و انصاف سے کام لینا چاہئے۔ کسی معصوم شہری کو مجرم بناکر پیش کرنا اور کسی مجرم کو بااثر ہونے کی بناء پر چھوڑ دینا خلاف انصاف ہے۔ ہمارے منتخب نمائندوں کو بھی اپنے تفویض شدہ کاموں سے انصاف کرنا چاہئے، نہ کہ وہ تعمیراتی کامو ں میں کمیشن لیکر اپنے انتخاب پہ خرچ ہونے والی رقم کو واپس وصول کرنے کے لیے کمیشن اور رشوت کا سہارا لیں۔ یہ بد دیانتی اور سرا سر نا انصافی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اے کاش ہمارے پورے ملک میں عدل و انصاف کا پرچم لہرائے اور سب کو انصاف ہوتا نظر بھی آئے۔ آمین!