Budget 2024-25

تلخ فیصلے ……مگر اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقے کے لیے

رفیع صحرائی

وزیرِ اعظم پاکستان جناب شہباز شریف نے اپنے تازہ ترین خطاب میں فرمایا ہے کہ اگر تلخ فیصلے نہ کیے گئے تو تین سال بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ڈوب مرنے کا مقام ہو گا۔ میاں شہباز شریف جب تقریر کرتے ہیں تو عوام کے لیے درد ان کے الفاظ میں سمٹ آتا ہے۔ جس قدر پریشانی ان کے الفاظ سے ظاہر ہوتی ہے اس کا اظہار ان کے چہرے سے بھی واضح ہو رہا ہوتا ہے۔

یوں لگتا ہے جیسے میاں شہباز شریف اپنے عوام کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں اور جانے سے پہلے وہ ملک اور عوام کی تقدیر بدل کر رکھ دیں گے۔ لیکن ان کے سولہ ماہ والی پی ڈی ایم حکومت کا ٹریک ریکارڈ دیکھیں تو بے یقینی سی ہونے لگتی ہے۔ تب بھی انہوں نے بہت بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ عمران حکومت ہٹانے کے دیگر مقاصد میں سے ایک بڑا مقصد ان کے نزدیک یہ بھی تھا کہ عمران خان مہنگائی کا طوفان لے آئے تھے جس میں عوام سوکھے پتوں کی طرح اڑ گئے تھے۔ جناب بلاول نے مشہورِ زمانہ کراچی تا اسلام آباد مہنگائی مارچ کر کے عوام کو جگانے اور بتانے کی کوشش کی تھی کہ عمران حکومت عوام کے لیے کتنی خطرناک ہے۔ اور پھر چشمِ فلک نے یہ منظر بھی دیکھا کہ مہنگائی کے خاتمے کے لیے آنے والی حکومت نے عوام پر تاریخ کی سب سے بڑی 85 رکنی وفاقی کابینہ کا بوجھ لاد دیا۔ بلاول بھٹو زرداری وزارتِ خارجہ کے منصب پر براجمان ہوتے ہی عوام کو یوں بھول گئے گویا کبھی آشنا ہی نہ تھے۔ ملکِ عزیز میں مہنگائی کی ایسی لہر آئی کہ جس نے تھمنے کا نام ہی نہ لیا۔ الیکشن 2024 میں میاں نوازشریف کی طلسماتی اور کرشماتی شخصیت بھی پی ڈی ایم حکومت کی ناقص کارکردگی کے اثرات کو زائل نہ کر سکی۔ مسلم لیگ ن متوقع کامیابی کے قریب بھی نہ پھٹک سکی اور میاں نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننے کی حسرت دل میں لے کر رہ گئے۔ مجبوراً انہیں اپنے بھائی کو وزیرِ اعظم بنوانا پڑا۔میاں شہباز شریف نے دوبارہ وزیرِ اعظم بننے کے بعد عوام کو مہنگائی کی چکی میں پیسنے کا سلسلہ وہیں سے شروع کیا جہاں سے چھوڑا تھا۔ نتیجے کے طور پر زندگی عوام پر بھاری اور سکون غارت ہو گیا ہے۔

ایسے میں وزیرِ خزانہ جناب محمد اورنگ زیب یہ خوشخبری سنا رہے ہیں کہ معیشت کی سمت درست اور ترقی کی طرف گامزن ہے۔ عوام کا لہو نچوڑ نچوڑ کر خزانے کے تالاب کو بھرنا اگر معیشت کی ترقی ہے تو یقیناً اورنگ زیب صاحب اس میں کامیاب ہیں۔ انتہائی بھاری معاوضے پر آئی ایم ایف کی طرف سے مسلط کیے گئے وزیرِ خزانہ پیشے کے لحاظ سے بینکار ہیں۔ ایک اکانومسٹ نے بہت پہلے ایک کالم لکھا تھا جس میں انہوں نے ثابت کیا تھا کہ کوئی بینکار اچھا وزیرِ خزانہ ثابت نہیں ہو سکتا۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ بینکار کی عادت ہاتھ پھیلا کر مانگنا ہے اور مانگنے والا کبھی کسی کو سہولت نہیں دے سکتا۔ لیموں کا آخری قطرہ تک نچوڑنے والے یعنی آئی ایم ایف والے ہمیشہ بینک سے ہی وزیرِ خزانہ منتخب کرتے ہیں۔ کبھی شعیب قریشی، کبھی شوکت عزیز، کبھی حفیظ شیخ تو کبھی شوکت ترین اور کبھی اورنگ زیب۔ یہ لوگ اپنے آقا و مربی آئی ایم ایف کے نمائندے ہوتے ہیں۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے مفادات کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ یہ عوام کے خیرخواہ کیسے ہو سکتے ہیں۔ عوام کے خیر خواہ تب ہوں جب عوام کے منتخب کردہ ہوں۔ آسمانوں سے پیراشوٹ کے ذریعے نازل ہونے والوں کی جڑیں عوام میں ہوتی ہیں نہ عوام سے ان کا کوئی تعلق ہوتا ہے۔ یہ وہ آسمانی مخلوق ہوتے ہیں جنہیں زمین پر قہر برسانے کے لیے نازل کیا جاتا ہے۔ ان کا نزول صرف بھیجنے والے کی رضا سے نہیں ہوتا بلکہ زمین زادے جو زمینی خدائی کے منصب پر براجمان ہوتے ہیں وہ قہر اور عذاب کے ان ہرکاروں کو دعوت دے کر بلاتے ہیں۔ یہ ”لیموں نچوڑ” وزرائے خزانہ عوام کو پیسنے کے لیے چکی کے پاٹ یا ان کا تیل نکالنے کے لیے کولہو ثابت ہوتے ہیں۔ یہ عوام کو کند چھری سے ذبح کرنے والے قصائی ہوتے ہیں جو عوام کا خون خود پی جاتے ہیں اور ان کا گوشت اشرافیہ کے لیے چھوڑ دیتے ہیں۔

ہمارے وزیرِ خزانہ فرما رہے ہیں کہ آئی ایم ایف سے جان چھڑانے کے لیے تلخ فیصلے کرنا پڑیں گے۔ بہت خوب، یعنی ابھی تک تو عوام کو ٹریلر ہی دکھایا گیا ہے۔ تلخ فیصلے تو ابھی باقی ہیں۔ عوام کے منہ سے روٹی کا نوالہ تک چھین لیا گیا ہے مگر ریلیف دینے کی بجائے تلخ فیصلوں کی وعید سنائی جا رہی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ سارے تلخ فیصلوں کی سزا عوام کو ہی کیوں بھگتنا پڑتی ہے۔ اشرافیہ کو کب اس دائرے میں لایا جائے گا۔ مراعات یافتہ طبقے کی مراعات کب ختم ہوں گی؟۔ مراعات لینے والے ”بڑے لوگ” کب عوام کی جان چھوڑیں گے؟

آپ تھوڑا سا بھی غور کریں گے تو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ بے تحاشہ ٹیکسوں اور مہنگائی کا تمام تر بوجھ گریڈ سولہ تک کے سرکاری ملازمین، دیہاڑی دار مزدوروں، بے نظیر انکم سپورٹ کے مستحق ناداروں اور بھیک مانگ کر گزارا کرنے والوں پر پڑتا ہے۔ تپتی دھوپ میں اینٹیں نکالنے والے بھٹہ مزدور اور سر پر اینٹیں گارا ڈھونے والے عام مزدور ہی ٹیکسوں اور مہنگائی کے ہاتھوں پس رہے ہیں۔ دکان دار، کارخانہ دار، صنعت کار، حتیٰ کہ نائی اور درزی بھی حکومتی بوجھ سے زیادہ متاثر نہیں ہوتا۔ سیمنٹ انڈسٹری پر ٹیکس لگا، سیمنٹ کی بوری ڈیڑھ سو روپے مہنگی کر کے حساب برابر کر لیا گیا۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری پر ٹیکس لگا، کپڑا مہنگا کر دیا گیا۔ تاجروں پر ٹیکس لگا تو اشیائے صرف مہنگی کر دی گئیں، دکان داروں نے اشیاء کے ریٹ بڑھا دیئے۔ حتیٰ کہ نائی نے بال کاٹنے اور شیو بنانے کی اجرت دوگنی کر دی۔ درزی نے سلائی کے ریٹ بڑھا دیئے۔ بجلی گری تو سرکاری ملازمین پر جن کی سیلری یا پنشن میں اضافہ اونٹ کے منہ میں زیرہ جتنا کیا جاتا ہے اور مہنگائی و ٹیکسز کا بوجھ کئی گنا بڑھا دیا جاتا ہے۔

میاں شہباز شریف اور جناب اورنگ زیب کی باتوں پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ وہ عوام کے ہمدرد ہیں؟۔ اورنگ زیب ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے جنہوں نے انہیں ہم پر مسلط کیا ہے۔ وہ کب چاہیں گے کہ آئی ایم ایف سے پاکستان کی جان چھوٹے اور ایک تگڑا ”گایک” اس کے ہاتھ سے نکل جائے۔ رہے میاں شہباز شریف، تو ان کے دعوے یقیناً خوش کن ہیں لیکن ان پر اعتبار کیسے کیا جائے کہ انہوں نے موجودہ بجٹ میں مراعات یافتہ طبقے کی مراعات مزید بڑھا دی ہیں۔ منتخب نمائندوں کے ایئر ٹکٹس میں اضافہ، اربوں روپے کے فنڈز، سرکاری گاڑیاں، مفت پٹرول، مفت بجلی، مفت گیس، مفت ٹرین ٹکٹ، مفت ٹیلی فون، مفت علاج، بیرونِ ملک بھی سرکاری خرچ پر علاج اور جانے مزید کیا کیا سہولیات اس عظیم طبقے کو حاصل ہیں۔ واپڈا اور سوئی گیس سمیت متعدد محکموں کے سربراہان ماہانہ ایک کروڑ سے بھی زائد میں پڑ رہے ہیں۔ ایوانِ صدر کا سالانہ بجٹ 70 فیصد بڑھا کر 22 ارب روپے سالانہ کر دیا گیا ہے۔ خدا کی پناہ! ایسی شہنشاہی مراعات اور وہ بھی بال بال قرضوں میں جکڑے ملک کی اشرافیہ اور مقتدر حلقے کے لیے۔ جبکہ عوام کے بچے غذائیت میں کمی کا شکار ہو رہے ہیں کہ ٹیکسز اور بجلی، گیس کے بل ادا کریں یا کچھ کھانے کو خریدیں۔ غریب بیمار ہو جائے تو گھر والے دل ہی دل میں اس کے جلد مرنے کی دعا مانگنے لگتے ہیں کہ کفن دفن کا خرچ بیماری پر لگ جائے گا۔ حکومتی آشیرباد سے ادویہ کی قیمتیں کئی گنا بڑھ چکی ہیں۔اوپر سے مزید تلخ فیصلوں کی جانکاہ خبر دی جا رہی ہے۔

دوسری طرف اپنی اور اپنے جیسے دوسرے برہمن طبقے کی شہنشاہی مراعات نہ انہیں نظر آرہی ہیں اور نہ ہی جناب وزیرِ اعظم کی توجہ اس طرف ہے۔ حضور! آپ کے عوامی ہمدردی اور آئی ایم ایف سے چھٹکارے کی خواہش کے بلند بانگ دعوے اپنی جگہ لیکن اس کا اظہار آپ کے عمل سے بھی تو ہونا چاہئے نا۔ عوام آپ کی تعیّشات کے سامان کو پورا کرنے کی خاطر مہنگائی کی بھٹی میں جل بُھن کر کباب ہونے کے بعد کوئلہ بن رہی ہے۔ اب عوام سے نہیں بلکہ اشرافیہ اور مراعات یافتہ لوگوں کے لیے سخت اور تلخ فیصلے کیجیے۔ عوام کی بس ہو گئی ہے۔