Lahore Metro Bus

ہے کوئی ذمہ دار؟

سعود عثمانی

ایک ڈیڑھ ماہ سے پھر اُن ستونوں کی قسمت ہری ہونے لگی ہے جو لاہور میں فیروز پور روڈ پر میٹرو بس کے جناتی پلوں کو سہارا دیے ہوئے ہیں۔ یہ قسمت کئی بار سبز ہوئی اور پھر زرد ہوتے ہوتے مرجھا کر اپنے منصوبہ سازوں کو کوستی نظر آتی تھی۔ ستونوں پر اس بار بڑے گملے لگائے جا رہے ہیں۔ نوشتہئ دیوار کا محاورہ اُردو میں معروف ہے۔ شعیب بن عزیز کا ایک شعر ہے ؎
بینر پر لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے

دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے

تو جو دیواروں پہ نہیں بلکہ ستونوں پہ لکھا ہوا ہوتا ہے‘ اسے کیا کہیں گے؟ جو عبارت نوشتہئ ستون ہے اُس کے لیے کوئی محاورہ ہے؟ میں اس منصوبے کے آغاز ہی سے اس کے مسائل اور فوائد کا چشم دید گواہ رہا ہوں کیونکہ میرا گھر سے دفتر کا راستہ کافی دور تک فیروز پور روڈ کے ساتھ رہتا ہے۔ جب مارچ 2012ء میں اس بس ٹریک کے منصوبے پر کام شروع ہوا تو اس کے فوائد اور نقصانات پر کافی بحثیں شروع ہوئیں۔ فوائد میں یہ بات ناقابلِ تردید تھی کہ لاہور کے شہریوں اور باہر سے آنے والوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کی بڑی سہولت فراہم کی گئی تھی‘ جبکہ دوسری طرف نقصانات کے حوالے سے سب سے پہلی ناقابلِ تردید حقیقت تو یہ ہے کہ اس معلق ٹریک نے اُن سڑکوں کو بدنما بنا دیا جو پہلے بھی خوشنما نہیں تھیں۔ ایک عظیم الجثہ اژدھے کی طرح یہ لہراتا‘ بل کھاتا پل کسی کے لیے بھی نظر کی کوئی خوبصورتی لے کر نہیں آیا۔ چلئے اس پر بھی صبر کرلیا جائے لیکن یہ سڑکیں سگنل فری کاریڈور بنانے کی تمام تر کوشش کے باجود ٹریفک کی تنگی اور ٹریفک جام کا اسی طرح شکار ہیں جیسے میٹروبس سے پہلے تھیں۔ کچھ پرانے مسائل کم ہوئے لیکن کچھ نئے بڑھ گئے۔ نتیجہ بہرحال یہ ہے کہ اب بھی صبح اور شام کے اوقات میں ان سڑکوں پر سفر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔
میٹروبس کا وہ ٹریک جو زمین پر ہے‘ اسے دونوں طرف لوہے کے جنگلے لگا کر عام ٹریفک کے لیے بند کردیا گیا ہے‘ یہی وجہ سے کہ اسے شروع میں لوگوں نے جنگلا بس کا نام بھی دیا تھا لیکن میٹروبس کا ٹریک جہاں جہاں زمین سے بلند ہے وہاں اسے چوڑے چکلے ستونوں کا سہارا دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے یہ بوجھ سہارنے کے لیے بہت مضبوط ستونوں کی ضرورت تھی۔ یہ ستون ضرورت کے مطابق ضروری فاصلوں پر مسلسل بنائے گئے ہیں۔ میرے سامنے اعداد و شمار نہیں‘ متعلقہ حکام اس کی وضاحت کرسکتے ہیں لیکن اگر یہ فرض کریں کہ ہر 50میٹر کے فاصلے پر ایک ستون کھڑا کیا گیا ہے اور زمین سے بلند ٹریک کی کل لمبائی 20کلو میٹر سمجھی جائے تو یہ 400 ستون بنتے ہیں۔ یہ ستون کھڑے ہوئے اور ان پر چھت ڈالی گئی تو بس چلنے سے بھی پہلے اس کا آرام جنگلی کبوتروں کو ہوا۔ چھت کی سلوں اور ستونوں کے درمیان جو فاصلہ چھوڑا گیا تھا وہ کبوتروں کے لیے بہترین رہائشی منصوبہ ثابت ہوا۔ یہاں انہیں آندھی‘ طوفان‘ گرمی‘ سردی کسی چیز کا کوئی خوف نہیں تھا اور یہاں وہ انسانوں کی پہنچ سے دور کافی بلندی سے اپنی دہلیز پر کھڑے ہوکر ان کا نظارہ کرسکتے تھے۔ یہ تو خیر اچھا نظارہ تھا لیکن پہلا خطرہ وہی پورا ہوا جس کا یقین تھا۔

ستون بننے کی دیر تھی کہ دھڑا دھڑ طرح طرح کے پوسٹرز اور بینرز ان پر لگنا شروع ہوگئے۔ ہر ستون کے چار رُخ ہیں اور ہر رُخ ان بینرز سے ہرا بھرا نظر آنے لگا۔ میں نے سوچا کہ یہ منصوبہ ساز اس کا کیا حل نکالیں گے؟ اچھا‘ کچھ تو آخر ذہن میں ہوگا ہی؟ اس بات کو زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ایک دن اس راستے پر کاریگر کام کرتے نظر آنے لگے۔ دیکھا کہ لوہے کے فریم‘ جس میں چھوٹے چھوٹے کھانچے بنے تھے‘ ہر ستون کے چاروں طرف فٹ کیے جا رہے ہیں۔ کم و بیش ایک ماہ یہی کام چلتا رہا۔ اس کے بعد دیکھا کہ بے شمار چھوٹے چھوٹے پلاسٹک کے گملے لائے گئے اور ان کھانچوں میں لگائے جانے لگے۔ پتا چلا کہ بالشت بھر لاکھوں گملے ان خانوں میں لگائے جائیں گے جن میں پودے ہوں گے۔ یہ نظر کو بھی خوبصورتی بخشیں گے اور ماحول بھی تروتازہ رکھیں گے۔ سچ یہ کہ جب علم ہوا تو میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ ایک عام آدمی کو بھی نظر آسکتا تھا کہ یہ چلنے والا منصوبہ نہیں۔ ستون کے ایک رخ پر چوڑائی کے رخ تقریباً 11گملے تھے جبکہ اگر پوری اونچائی پر چھت سے فٹ پاتھ تک دیکھا جائے تو 32‘ 33 گملوں کے خانے تھے۔ یعنی ایک رخ پر تقریباً 363 گملے۔ ہر ستون کے چار رخ ہیں اس طرح ایک ستون پر 1452 گملے بنتے ہیں۔ 400 ستونوں پر لگ بھگ پانچ لاکھ اَسی ہزار گملے۔ کچھ پر کم گملوں کی گنجائش بھی ہوگی لیکن یہ بہرحال لاکھوں سے کم نہیں۔ درست اعداد و شمار متعلقہ حکام دے سکتے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق اس منصوبے پر 12کروڑ روپے لاگت آئی جبکہ 80 لاکھ روپے دیکھ بھال کے لیے مختص کیے گئے۔ میں نے سوچا کہ پانچ لاکھ اَسی ہزار گملوں میں کون سے پودے لگائے جائیں گے جو پل کے نیچے ہر قسم کا موسم برداشت کر سکیں۔ بہت سے ستونوں پر بالکل دھوپ نہیں آتی۔ کسی جگہ ایک رخ پر آتی ہے‘ دوسرے رخ پر نہیں آتی۔ ان کا کیا ہوگا؟ ان کو تیز گرمی‘ جھلسا دینے والی لُو میں پانی کیسے دیا جائے گا؟ سال بھر پانی کی مختلف ضرورت کا انتظام کیسے ہو گا؟ کیا ہر گملے تک پائپ پہنچے گا؟ اس انتظام پر کیا لاگت آئے گی۔ یہ سارا پانی کس جگہ سے فراہم ہو گا؟ اگر پانی کے انہی ٹینکروں سے پانی دینے کا بندوبست کیا گیا جو گرین بیلٹ کو پانی دیا کرتے ہیں تو لاکھوں گملوں میں ہر ایک تک کون ذمے داری سے پانی پہنچا سکے گا؟ جو گملے کافی اونچائی پر ہیں انہیں ٹینکر سے پانی کیسے ملے گا؟ اس بالشت بھر گملے میں کون سے پودے ہوں گے جو تیز رفتار ٹریفک سے اڑتی گردکو سہار سکیں گے؟

پھر ایک دن دفتر جاتے دیکھا کہ ان گملوں میں شاید فرن کے چھوٹے پودے لگائے جارہے ہیں۔ لاکھوں گملوں میں یہ لگانا عملے کیلئے صبر آزما کام تھا چنانچہ مہینوں یہی چلتا رہا۔ پھر دیکھا کہ پانی کے ٹینکرز کھڑے ہیں۔ پائپ سے پانی دیا جارہا ہے۔ کچھ گملوں تک پہنچ رہا ہے۔ کچھ محروم ہیں لیکن یہ تصور کر لیا گیا ہے کہ ہم نے سب تک پانی پہنچا دیا۔ مہینہ اور گزرا اور یہ پودے مرجھانا شروع ہوئے۔ حسبِ توقع اکثر گملے خالی نظر آنے لگے۔ ابھی تو پودے سب جگہ لگائے بھی نہیں گئے تھے کہ پچھلے گملے خالی ہونے لگے۔ ان پودوں کی جگہ ہلکے سبز پتوں والی بیل لگائی جاتی دیکھی۔ کچھ دن یہ سلسلہ رہا اور پھر خاموشی چھا گئی۔ نہ پودے‘ نہ پانی لگانے والا عملہ‘ نہ ہریالی کا کوئی نشان۔ حسرت ان غنچوں پہ ہے۔ اگلا مرحلہ شکست و ریخت کا تھا۔ کھانچے گملوں سے خالی ہونے لگے۔ پتا نہیں لوگ اٹھا کر لے گئے یا عملے کی نذر ہوئے لیکن قطاروں کی قطاریں ٹوٹے دانتوں کی طرح نظر آنے لگیں۔ کہیں فریم باقی رہ گیا۔ کہیں گملے۔ ہریالی بہرحال کہیں بھی نہیں۔ اس کے بعد رہ جاتا تھا تو ایک خبر کا انتظار‘ اور وہ خبر بھی آخر آہی گئی جس کا مجھے بہت مدت سے خطرہ تھا بلکہ درست بات یہ ہے کہ جس کا یقین تھا۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کا کوئی انجام ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ پہلے دن سے اس کا آخری دن سامنے تھا۔ خبر کا مفہوم یہ تھا کہ لاہور میٹرو بس ٹریک کے ستونوں پر خوبصورتی اور آرائش کے لیے آویزاں کیے جانے والے چھوٹے چھوٹے گملے ایل ڈی اے نیلام کرے گا‘ اس لیے کہ یہ منصوبہ ناکام ہو چکا ہے اور ان کی دیکھ بھال پر بہت خرچ ہے۔ ایل ڈی اے یہ لاکھوں گملے نیلام کرکے اپنی جان چھڑائے گا۔

اور اب ڈیڑھ دو ماہ سے پھر گملے لگائے جارہے ہیں۔ اس بار بڑے سائز کے۔ پھر ان میں پودے لگ رہے ہیں۔ لیکن بنیادی سوال وہی جو اس تحریر میں اوپر لکھے جا چکے۔ کتنے گملے؟ کتنی لاگت؟ کتنے پودے؟ کتنا وقت؟ کتنا ضیاع؟ ہے کوئی جواب دہ؟ ہے کوئی ان سب کا ذمہ دار؟