Media

میڈیا کا کردار اور کارکردگی

رفیع صحرانی

یہ حقیقت ہے کہ رائے عامہ کو بنانے، بگاڑنے، ہموار کرنے یا کسی خاص سمت میں موڑنے میں میڈیا کا کردار بہت اہم ہے۔ اس میں الیکٹرانک، سوشل اور پرنٹ میڈیا سبھی شامل ہیں۔ اخبارات میں کالم اور اداریے اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ 90 کی دہائی تک اخبارات کی اہمیت مسلمہ رہی ہے۔ تب اخبارات کا بھی اپنا ایک معیار ہوا کرتا تھا۔ گنتی کے اخبارات تھے۔ ان اخبارات کا ایک معیار تھا۔ ان میں لکھنے والے بہت سنجیدہ، متین، دانشور اور اپنے شعبے کے ماہر ہوا کرتے تھے۔

یہ ایسا وقت تھا کہ لوگ اخبار کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اخبار پڑھنے کی لوگوں کو لت لگی ہوتی تھی۔ رواج اور طریقہ یہ تھا کہ اہم خبروں کو پڑھنے کے بعد ادارتی صفحے کو اطمینان اور سکون سے بیٹھ کر پڑھا کرتے۔ اخبار کا ادارتی صفحہ رائے عامہ کی تشکیل کرتا تھا۔ لوگوں کا رجحان بنانے میں اہم کردار ادا کرتا۔ اخبارات معلومات کا ذریعہ بھی تھے اور خزانہ بھی۔ تعلیم عام نہ تھی۔ پڑھے لکھے لوگ معزز بھی ہوتے تھے اور مہذب بھی۔ وہ اخبارات سے کشید کی گئی معلومات، علم اور دانش عام لوگوں تک پہنچایا کرتے تھے۔ یوں وہ معاشرے کے سیانے لوگ ہوا کرتے جن کی بات توجہ سے سنی جاتی۔ اب لاتعداد اخبارات، نیم خواندہ اور ناخواندہ ایڈیٹرز، غیر سنجیدہ، نیم خواندہ اور کاپی پیسٹ کالم نگاروں کی وجہ سے یہ میڈیم پہلے کی طرح موثر نہیں رہا۔

پھر یوں ہوا کہ فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کے دور میں برپا ہونے والے میڈیائی انقلاب نے بڑی تیزی کے ساتھ سب کچھ بدل کر رکھ دیا۔ بہت سے ٹی وی چینلز معرضِ وجود میں آئے۔ کیبل نیٹ ورک کے ذریعے عوام کی رسائی ان چینلز تک ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ٹی وی ہر گھر کی ضرورت بن گیا۔

شروع میں تو یہ چینلز انٹرٹینمنٹ کے پروگرام ہی پیش کرتے رہے کہ یہی پبلک ڈیمانڈ تھی۔ پھر یہ چینلز بھی اسپیشلائزیشن کی طرف آ گئے۔ انٹرٹینمنٹ، نیوز، اسپورٹس، کُوکنگ،سائنس، بچوں کے پروگرامز اور مذہبی پروگراموں کے چینلز کی تخصیص ہو گئی۔ ہر کوئی اپنے مزاج کے مطابق اپنی مرضی کے چینل کا انتخاب کر کے پسندیدہ پروگرام دیکھنے لگا۔ گھر میں ایک سے زائد ٹی وی سیٹ آ گئے۔ ٹی وی چینلز میں سیاسی ٹاک شوز کا آغاز حامد حامیر کے کیپیٹل ٹاک سے ہوا۔ یہ پروگرام لوگوں کو اتنا پسند آیا کہ صرف اس ایک پروگرام کی وجہ سے پاکستان میں درجنوں نیوز چینلز کا قیام عمل میں آیا۔ کیپیٹل ٹاک کی طرز پر دیگر نیوز چینلز بھی ٹاک شوز کرنے لگے۔ ٹی وی کا پرائم ٹائم کبھی رات آٹھ سے نو بجے ہوا کرتا تھا۔ اس ایک گھنٹے کے دوران بھی کوئی مقبولِ عام ڈراما سیریل ٹیلی کاسٹ ہوا کرتی تھی۔ اب ٹی وی پر سیاسی موضوعات پر ٹاک شوز شروع ہونے سے ٹی وی کا پرائم ٹائم شام سات بجے سے رات بارہ بجے تک ہو گیا ہے۔

ان ٹاک شوز میں ابتدا میں بہت اہم نوعیت کے موضوعات پر بڑی سنجیدہ گفتگو ہوا کرتی۔ عوامی مسائل کو موضوع بنا کر ذمہ داران کو گفتگو کے لیے بلایا جاتا۔ یہ پروگرام صحیح معنوں میں عوام کی نمائندگی کا حق ادا کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ یہ پروگرام سیاسی موضوعات تک محدود ہوتے چلے گئے۔ سیاستدان آتے، پارٹی پالیسی کے مطابق اپنا اپنا نقطہ نظر بیان کرتے۔ نتیجہ عوام پر چھوڑ دیا جاتا اور یوں ان کی افادیت کم ہوتی چلی گئی۔

گزشتہ چند سالوں سے یہ ٹاک شوز سیاسی پولرائزیشن کا شکار ہو گئے ہیں۔ اب ان شوز میں مخالف سیاسی نظریہ رکھنے والے لوگوں کو کم اور شدت پسند متحارب سیاست دانوں کو زیادہ تعداد میں بلوایا جاتا ہے۔ میزبان کسی عوامی مسئلے کو اجاگر کرنے کی بجائے اب کسی اختلافی نکتے کو زیرِ بحث لا کر مہمانوں کو اشتعال دلا کر دست و گریبان ہونے کی سہولت کاری مہیا کرتا نظر آتا ہے۔

صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ ٹاک شوز کے سیاسی مہمان اب سیاستدان کم اور اداکار زیادہ نظر آتے ہیں۔ وہ کسی سیاسی لیڈر کی حمایت میں ایک دن دوسروں پر طعن و تشنیع کرتے اور طنز کے تیر برساتے نظر آتے ہیں تو چند روز بعد سیاسی وفاداری تبدیل کر کے اپنے سابقہ ممدوح کی مٹی پلید کر رہے ہوتے ہیں۔ کس قدر واہیات سیاست اور صحافت ہے۔ مگر کیا ہے کہ ہر شخص کو بس یہی کچھ دیکھنا پڑتا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز اب رائے عامہ بنانے یا ہموار کرنے کی بجائے گھٹیا مزاحیہ پروگراموں یا WWE کی ریسلنگ کا متبادل بن گئے ہیں۔ ریٹنگ کے چکر میں میزبانوں اور چینلز انتظامیہ نے اخلاقیات کو پسِ پشت ڈال دیا ہے۔

ان پروگراموں کے تھرڈ کلاس اور گھٹیا ہونے کا اندازہ اسی سے لگا لیں کہ آج کل ان شوز میں بشریٰ بی بی کی طلاق، عدت میں نکاح، عمران خان کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھالنا، سیاست دانوں کی کرپشن کی سچی جھوٹی مصالحے دار کہانیاں، توشہ خانہ اور اسی طرح کے موضوعات رہ گئے ہیں۔ ملک میں بدترین مہنگائی، کسانوں کی بدحالی، کھاد کی کمیابی، جعلی اور مہنگی ادویات کی بھرمار، تعلیمی زبوں حالی، لینڈ مافیا اور قبضہ گروپوں کی من مانی، نظام انصاف کی کمزوریاں اور اس جیسے سینکڑوں عوامی مسائل کو موضوع بنانے کا ان کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔

الیکٹرانک میڈیا کے ٹاک شوز نے جب سے یہ رنگ اپنا لیے ہیں رائے عامہ کو بنانے والے غیر جانبدار دانشوروں کا دور تمام ہوگیا ہے۔ مادی فائدہ ہی اب مطمح نظر رہ گیا ہے۔ اب تو چینلز، اینکرز، تجزیہ کار اور دانشور بھی جانبدار ہو گئے ہیں۔ ہر ایک کی کسی نہ کسی سے سیاسی وابستگی ہے اور ہر ایک اداکار ہے۔ کوئی پارٹی لائن کی صدا کاری کرتا ہے اور کوئی اپنے ادارے کا اسکرپٹ پڑھتا ہے۔

جہاں تک سوشل میڈیا کا تعلق ہے تو شروع میں اس کا کردار بھرپور رہا۔ جس کا سیاسی پارٹیوں نے بھی بھر پور فائدہ اٹھایا۔ اب اسے غیرسنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ جھوٹ کی بھرمار کی وجہ سے اب اس کی حیثیت افواہ ساز فیکٹری سے زیادہ نہیں رہی۔ اب یہ زیادہ تر جھوٹے پراپیگنڈا کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم فرمائے، ہم کسی بھی چیز کا مثبت استعمال آج تک نہیں کر پائے۔