National Assembly of Pakistan

قومی اسمبلی کے ابتدائی 100 دن!

امتیازاحمد تارڑ

پاکستان کی سولہویں قومی اسمبلی کے 100 دن مکمل ہونے پر فافن نے رپورٹ جاری کی ہے، جو اس قانون ساز ادارے سے وابستہ امیدوں پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے: کہ قومی اسمبلی کے 100 دن مکمل ہوچکے ہیں،ان سو دنوں میں وزیراعظم شہباز شریف نے صرف 2 اجلاسوں میں شرکت کی ہے اور ان کی شرکت کا تناسب 10 فیصد رہا ہے۔جبکہ گزشتہ اسمبلی میں اسی مدت کے دوران بانی پی ٹی آئی کی حاضری کا تناسب 29 فیصد تھا۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کے ابتدائی 100 ایام میں مجموعی طور پر ایوان نے 66 گھنٹے 33 منٹ پر محیط 23 اجلاس منعقد کیے۔ اسپیکر اور ڈپٹی سپیکر نے 84 فیصد کارروائی کی صدارت کی تاہم ان اجلاسوں میں وفاقی وزراء کی حاضری بھی کم رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق ن لیگ کے صدر نواز شریف کا حاضری کا تناسب 26 فیصد، قائد حزب اختلاف عمر ایوب کی اجلاس میں شرکت 88 فیصد، اسپیکر ایاز صادق اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کی حاضری کا تناسب 82 فیصد رہا ہے۔ قومی اسمبلی کے ایوان میں اب بھی 23 ارکان کی کمی ہے۔یہ 23سیٹیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی مکمل ہو ں گی۔ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان کافی کشیدگی ہے جس کے باعث ابھی تک قائمہ کمیٹیاں خالی ہیں۔یہی وجہ ہے کہ قانون سازی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔ قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی نے کیا گل کھلائے؟اگر دیکھا جائے تو ابتدائی 100 روز میں 310 میں سے 159 ارکان نے متحرک انداز میں کارروائی میں حصہ لیا اور ارکان اسمبلی کی اوسط حاضری 230 اراکین اسمبلی پر مشتمل رہی۔ سنی اتحاد کونسل کے اراکین نے قومی اسمبلی کی کارروائی میں سب سے زیادہ حصہ لیا۔ اجلاسوں میں پوائنٹس آف آرڈر پر پارلیمان کے 30 فیصد وقت کا استعمال کیا گیا۔اس کے مقابلے میں حکومتی ارکان نے سستی روی کا اظہار کیا۔ قومی اسمبلی کے ارکان کسی پر کوئی احسان نہیں کرتے۔ بلکہ وہ اس کے عوض تکڑی مراعات لیتے ہیں۔
اس حوالے سے قومی اسمبلی سیکرٹریٹ نے نو منتخب ارکان اسمبلی کی تنخواہوں اور مراعات کے لیے ڈیڑھ ارب روپے کے مالیاتی بجٹ کی سفارشات تیار کی ہیں۔ قومی اسمبلی کیش اینڈ اکاؤنٹس برانچ نے اس سلسلے میں پروپوزل تیار کیا ہے۔ ان کے مطابق ارکان اسمبلی کی تنخواہوں کے لیے41 کروڑ11لاکھ، دیگر الاؤنسز کے لیے 13 کروڑ، آپریشنل اخراجات کے لیے 89 کروڑ 10 لاکھ مختص کرنے کی تجویز دی گئی۔ارکان اسمبلی کو مراعات کے مد میں 25 بزنس کلاس ایئر ٹکٹ، تین لاکھ مالیت کے ٹریولنگ واؤچر، بلیو پاسپورٹ کے ساتھ مفت ریلوے سفر کی سہولیات میسر ہوں گی۔ یومیہ ٹی اے ڈی،کنوینس الاؤنس، سپیشل الاؤنس، اضافی الاؤنس،گھریلوں الاؤنس اور ٹریولنگ الاؤنس کی مد میں ہزاروں روپے ملیں گے۔

نومنتخب ارکان کے ریگولر الاؤنس کے لیے 9 کروڑ 60 لاکھ، دیگر الاؤنسز کے لیے 3 کروڑ 40 لاکھ روپے مختص کیے گئے جبکہ ارکان کے ٹریولنگ اور ٹرانسپورٹیشن کے لیے 89 کروڑ 5 لاکھ روپے مختص کیے گئے۔نومنتخب ارکان اسمبلی تنخواہوں کو مراعات میں ہر رکن کو ایک لاکھ 50 ہزار ماہانہ بنیادی تنخواہ، 38 ہزار اضافی الاؤنسز کی مد میں ملے گا۔ارکان اسمبلی کو ٹیلی فونک الاؤنس کی مد میں 10ہزار، آفس الاؤنس کی مد میں 8 ہزار ملیں گے جبکہ ایڈہاک ریلیف کی مد میں 15ہزار، اضافی الاؤنس کی مد میں 5 ہزار بھی تنخواہ میں شامل ہوگا۔ارکان اسمبلی کو مراعات کے مد میں 25 بزنس کلاس ایئر ٹکٹ، تین لاکھ مالیت کے ٹریولنگ واؤچر دستیاب ہوں گے۔ دوران اجلاس سفر پر رکن اسمبلی کو فضائی سفر پر 150 روپے جبکہ زمینی سفر پر 10روپے فی کلومیٹر کے حساب سے ٹریولنگ الاؤنس ملے گا۔ دوران ڈیوٹی رکن اسمبلی یومیہ دو ہزار روپے گھریلو الاؤنس بھی حاصل کرنے کے حقدار ہوں گے۔ارکان اسمبلی کو سالانہ تین لاکھ روپے کے ٹریولز واؤچرز، 25 بزنس کلاس مفت ریٹرن ٹگٹ بھی فراہم کیے جائیں گے۔ جبکہ ہر رکن اسمبلی اور ان کے فیملی ممبران سرکاری پاسپورٹ پر سفر کرنے کی مجاز ہوں گے۔ ارکان اسمبلی اور انکی فیملی ممبران کو بلیو پاسپورٹ کا اجراء کیا جائے گا۔ یہ وہ مراعات ہیں جو قانونی طور پر ایک رکن اسمبلی کو ملے گے،اس کے علاوہ پانچ برسوں میں کتنا ترقیاتی فنڈملے گا؟ اس کا کوئی حساب نہیں۔

اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے چیئرمین بننے پر 25ہز ار روپے اعزازیہ دیا جائے گا۔ چیئرمین کمیٹی بنے پر رکن کو پرائیوٹ سیکرٹری، سٹینو، نائب قاصد اور ڈرائیور اور گاڑی بھی دی جاتی ہے۔ رکن اسمبلی بطور چیئرمین کمیٹی 1300 سی سی گاڑی کے ساتھ 600 لیٹر فیول بھی فراہم کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ سینٹ میں اس قدر مراعات ہیں کہ نورعلی نور۔ ہر طرف مراعات ہی مراعات ہیں۔ سابق چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی نے تو کوشش کی تھی کہ ہر رکن سینٹ پر تاحیات مراعات کی بارش ہوتی رہے لیکن سوشل میڈیا نے ان کے خوابوں کو اکارت کر دیا، غفلت کی چادر اڑھنے والے عوام نے اس پر شدید رد عمل دیا اور بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔صادق سنجرانی اگر ا س میں کامیاب ٹھہرتے تو پھر عوام کی جمع پونجی پر انھیں تاحیات مزے کرنے کی اجازت مل جاتی۔

مختصراً رکان اسمبلی کی ابتدائی 100دنوں کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔