Indian Muslims Houses Destroyed

موجودہ حالات میں بھارتی مسلمانوں کے لیے لائحہ عمل

مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

گزشتہ سے پیوستہ:
ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے جدوجہد کے بہت سے میدان ہیں، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اسلام کی دعوت، برادران وطن میں اسلام کا تعارف، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا، مسلمانوں کو سچا اور پکا مسلمان بنانا، رضاکارانہ طور پر سو فیصد شریعت پر عمل کرنے کا جذبہ پیدا کرنا، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے مختلف میدانوں کی طرف مسلمان تعلیم یافتہ نوجوانوں اور ہنر مندوں کو لانا، خدمت خلق کی نسبت سے ملک میں اپنی ایک پہچان پیدا کرنا، جیسا کہ عیسائی حضرات کے یہاں ہے، مسجدوں اور مدرسوں کو عام فاقہ کش لوگوں کی کفالت کا مرکز بنانا، جیسا کہ گرودواروں میں لنگر کا انتظام کیا جاتا ہے، برادران وطن سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش اور اس کیلئے خود اپنی طرف سے قدم آگے بڑھانا، جیسا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ کے مشرکین اور مدینہ کے یہود کے ساتھ کیا تھا۔اور اس طرح کے دوسرے کام، جن کی ضرورت مسلمانوں کو بھی ہے اور برادران وطن کو بھی، ان میں نہ صرف حصہ لینا بلکہ قائدانہ کردار ادا کرنے کی کوشش کرنا، اور یہ کام آسان ہے، اگر سیاسی قیادت میں آپ آگے بڑھنا چاہیں گے تو مزاحمت ہوگی لیکن اگر خدمت خلق کے میدان میں آگے بڑھیں گے تو اس میں مزاحمت نہیں ہوگی بلکہ لوگوں کا تعاون حاصل ہوگا اس لئے ہمیں ان کاموں کو ا پنی ترجیحات میں شامل کرنا چاہیے۔

دوسری چیز ہے: حکمت عملی کا لحاظ، حکمت عملی کا دائرہ بہت وسیع ہے؛ لیکن اس کی ایک صورت وہ ہے، جس کو قرآن مجید نے اعراض سے تعبیر کیا ہے: اعرض عن المشرکین (الحجر) لوگ مسلمانوں کا مذاق اڑاتے تھے، ان پر بے جا تنقید کرتے تھے، ان کے بارے میں نازیبا باتیں پھیلاتے تھے، اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: آپ مشرکین سے اعراض برتئے اور یاد رکھئے کہ جو لوگ اسلام اور مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں ہم خود آپ کیلئے ان کے مقابلہ میں کافی ہو جائیں گے، لوگ سمجھتے ہیں کہ اعراض اور پہلو تہی اختیار کرنا بزدلی کی بات ہے لیکن در حقیقت یہ ایک زبردست حکمت عملی ہے، جو مخالفین کے وار کو ناکام کرتی ہے، اگر کسی نے اسلام کے بارے میں بدگوئی کی اور ہم اس کے مذہب کے بارے میں اسی لہجہ کو اپنائیں، اگر کسی نے مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور اس کے جواب میں ہم ان کو اسی طرح برا بھلا کہیں تو اس سے عمل اور رد عمل کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، اور عام لوگوں کو اْکسانے اور بھڑکانے کا موقع ملتا ہے اور اگر بوقت ضرورت سنجیدگی کے ساتھ جواب دیں، یا مصلحت کے تقاضے کے تحت بالکل خاموش ہو جائیں تو اب آپ کے مخالفین کیلئے مزید بھڑکاو گفتگو کرنے کا موقع باقی نہیں رہتا۔

ماضی میں مسلمانوں نے رد عمل کی بجائے تعمیر کی سمت میں محنت کی، پبلک سروس امتحان میں پچاس سے زیادہ مسلمانوں نے کامیابی حاصل کی، نیٹ کے امتحان میں بڑی تعداد میں مسلم طلبہ اور طالبات نے کامیابی کے جھنڈے گاڑے اور بعضوں نے ٹاپ ٹین میں اپنی جگہ بنائی، چندریان مہم میں چار چار مسلمان سائنس دانوں نے حصہ لیا، مختلف شہروں میں مسلمانوں نے تجارت اور چھوٹی موٹی صنعتوں میں اپنی حصہ داری کو بڑھایا، پچھلے دس سالوں میں انھوں نے عصری تعلیم کے ادارے کثرت سے قائم کئے، کبھی مسلمان ڈاکٹروں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاتی تھی لیکن اب صرف حیدرآباد اور بنگلور میں کم وبیش ایک ہزار مسلمان لڑکے اور لڑکیاں میڈیکل تعلیم حاصل کر رہے ہیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں مسلم نوجوانوں کا قدم آگے بڑھ رہا ہے، انھوں نے ٹکرانے میں اپنی قوت خرچ کرنے کی بجائے تعمیر کی طرف اس کا رخ کر دیا اور دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی بجائے مختلف میدانوں میں اپنے پاوں پر چلنے کی کامیاب کوششوں کا آغاز کر دیا ہے۔

دینی مدارس پر الزام تھا کہ وہ دنیا سے بے خبر اور عصری علوم سے ناآشنا ہوتے ہیں لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ مدارس سے نکلنے والی نئی نسل نہ صرف ضروری عصری تعلیم سے آراستہ ہے بلکہ وہ آئی اے ایس اور آئی پی ایس بن رہے ہیں، آئی ٹی فیلڈ میں اپنا جوہر دکھا رہے ہیں، قانون کے میدان میں پوری خود اعتمادی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں اور مختلف میدانوں میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوا رہے ہیں، یہی حکمت عملی ہے کہ رد عمل پر اپنی قوت خرچ کرنے کی بجائے اپنی تعمیر پر محنت کی جائے، اگر مسلمان اسی طرح تسلسل کے ساتھ اپنا سفر جاری رکھیں تو ان شاء اللہ بہت جلد ہماری قوم سرخرو ہوگی۔

تیسری چیز جو ان حالات میں ضروری ہے اور صرف ان ہی حالات میں نہیں بلکہ ہمیشہ ضروری ہے اور یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہے، وہ ہے رجوع الی اللہ جس کو بقرہ میں صلوٰۃ سے تعبیر کیا گیا ہے، یعنی اللہ سے رجوع کرنا، اپنے مالک کے سامنے ہاتھ پھیلانا اور اپنی مظلومیت کو ان کے سامنے پیش کرنا۔ہمیں اللہ پر یقین رکھنا چاہیے اور اس بات پر اعتماد کرنا چاہیے کہ کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی کیونکہ ہماری اصل طاقت ہمارا ایمان ہے، ہمارااصل اثاثہ اللہ کی مدد ہے اور ہمارے ہاتھوں میں اس نبی کا دامن ہے، جس کی نبوت قیامت تک کیلئے ہے، اس لئے کوئی طاقت ہمیں شکست نہیں دے سکتی، ہم نے اس ملک کی تعمیر وترقی میں دیگر ابنائے وطن سے بڑھ کو حصہ لیا ہے؛ اس لئے ہم اس کو چھوڑ نہیں سکتے۔