Crypto Loans

فلیش لون یعنی کولیٹرل لیس کرپٹو قرضے

ڈاکٹرمبشر حسین رحمانی

(چھٹی قسط)

فلیش لون اور مائیکرو پیمنٹ میں فرق

اگر ہم مْرَوَّجَہ مالیاتی و معاشی نظام میں دیکھیں تو ہمیں مائیکرو پیمنٹ Micro Payment ٹرانزیکشن نظر آتی ہیں۔ اگرچہ مائیکرو پیمنٹ فلیش لون سے ملتی جلتی لگتی ہے مگر اس میں اور فلیش لون میں کئی بنیادی فرق ہیں۔
٭……فرق اول: فلیش لون صرف کرپٹو کرنسی کے نظام پر انحصار کرتا ہے جبکہ مائیکرو پیمنٹ کیلئے کرپٹو کرنسی کی ضرورت نہیں۔
٭……فرق دوم: فلیش لون کا دَورانِیَہ صرف ایک ٹرانزیکشن کی توثیق کا دَورانِیَہ ہے جبکہ یہ بات مائیکرو پیمنٹ پر لاگو نہیں ہوتی۔
٭……فرق سوم: بعض کرپٹو کرنسی میں ٹرانزیکشن کی توثیق کا دَورانِیَہ دس منٹ ہوتا ہے لہٰذا فلیش لون کا دَورانِیَہ بھی دس منٹ ہوگا۔ نیز جن کرپٹو کرنسیوں میں ٹرانزیکشن کی توثیق کا دَورانِیَہ کم ہوتا ہے،فلیش لون کی مدت بھی اسی لحاظ سے کم ہوگی۔ اس کے بالمقابل مائیکرو پیمنٹ کا دَورانِیَہ کا ٹرانزیکشن کی توثیق کے دَورانِیَہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
٭……فرق چہارم: فلیش لون کے نظام میں اٹامک ٹرانزیکشن موجود ہوتی ہے جبکہ مائیکرو پیمنٹ میں اٹامک ٹرانزیکشن نہیں ہوتی۔
فلیش لون اور حقیقی معیشت

فلیش لون کے ذریعے قرضے کی فراہمی کا جو نظام قائم کیا گیا ہے، اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔اس کو ایک مثال سے سمجھتے ہیں مثلاً زید کے پاس پانچ تولہ سونا ہے۔ وہ اس پانچ تولہ سونے کو گروی رکھوا کرتین لاکھ پاکستانی روپے بطور قرضہ حاصل کرتا ہے۔اگر کسی وجہ سے وہ تین لاکھ روپے کی واپس ادائی نہیں کرپاتا تو مرتہن اس سونے کو بیچ کر اپنا تین لاکھ قرض وصول کرسکتا ہے،قرض وصولی کے بعد بقیہ رقم اصل مالک (گروی رکھنے والے) کو لوٹانا ضروری ہے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ مرتہن کا اس سونے کو استعمال کرنا ناجائز ہے۔یہاں پر یہ بات اہم ہے کہ سونا شرعی طور پر ”مال“ ہے اور اس کی ذاتی قدر بھی ہے۔اسی وجہ سے اگر مقروض قرضے کی ادائی نہیں کرپاتا تو رہن کے ذریعے سے مرتہن اپنے قرضے کی وصولیابی کرسکتا ہے۔ اس کے بالمقابل بکر کو تین لاکھ قرضہ چاہیے، اس کیلئے وہ یہ حیلہ اختیار کرتا ہے کہ ایک فرضی پلاٹ (جس کی مالیت چالیس لاکھ پاکستانی روپے وہ تصور کرلیتا ہے) جس پلاٹ کا کوئی حقیقی وجود نہیں، اس کو کھاتے میں اندراج کے ذریعے بطور گروی رکھوادیتا ہے۔ کیا کوئی ذی شعور ایسے فرضی پلاٹ کو بطور رہن رکھنے کا سوچ بھی سکتا ہے؟ نہیں، ہرگز نہیں! اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ قرض دینے والے کو ایسے فرضی پلاٹ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ نہ تو یہ پلاٹ حقیقی وجود رکھتا ہے اور نہ ہی اس کا اتنی مالیت ہے۔بس یہی کچھ فلیش لون اور کرپٹو اثاثوں کی دنیا میں ہورہا ہے کہ فرضی نمبروں کا کھاتے میں اندراج کردیا جاتا ہے، ان فرضی نمبروں میں کوئی ذاتی قدر نہیں اور پھر اس کو بطور گروی رکھ دیا جاتا ہے، نیز ان فرضی نمبروں کو ہی بطور قرض بھی دے دیا جاتا ہے۔ یہ سب گورکھ دھندا وہ لوگ کرتے ہیں جنہوں نے فرضی معیشت کو پروان چڑھانا ہے، لوگوں سے پیسہ بٹورنا ہے۔ یہی لوگ ایسا نظام قائم کرتے ہیں اور سادہ لوح عوام کو یہ تاثر دیتے ہیں کہ ان فرضی نمبروں میں کچھ ”قدر“ ہے اور پھر ایک وقت آتا ہے کہ یہ سارا تخیلاتی نظام دھڑام سے زمین بوس ہوجاتا ہے کیونکہ حقیقت میں تو پیچھے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے شریعت حقیقی اثاثوں پر مبنی معیشت کی بات کرتی ہے اورتجارت و لین دین کے کچھ اصول وضع کرتی ہے تاکہ انسانیت کا مجموعی طور پر فائدہ ہو۔

شرعی لحاظ سے فلیش لون میں قابلِ غور چند پہلو:
شرعی لحاظ سے فلیش لون میں جو پہلو قابلِ غور ہیں اْن میں سے چند یہ ہیں۔
٭ فلیش لون میں جو قرضہ ملتا ہے وہ کرپٹو کرنسی و اثاثوں کی شکل میں ملتا ہے۔
٭فلیش لون میں جو قرضہ واپس لوٹانا پڑتا ہے وہ کرپٹو کرنسی و اثاثوں کی شکل میں ہوتا ہے۔
٭فلیش لون لینڈنگ پول کو کرپٹو اثاثے مہیاکرنے پر صارفین کو سود ملتا ہے۔
٭فلیش لون لینڈنگ پول کو قرضہ لوٹاتے وقت سود دینا پڑتا ہے۔
٭دیکھئے اصولی بات یہ ہے کہ ”اگر کسی شخص نے قرض حسن لے کر کاروبار میں سرمایہ لگایا ہے اور دائن کے ساتھ شرکت یا مضاربت کا معاملہ نہیں کیا تو قرض لینے کے بعد مدیون خود اس روپے کا مالک ہوگیا، اب وہ خود سرمایہ دار کی حیثیت سے روپیہ لگا رہا ہے، اس لئے نقصان کی ذمہ داری بھی اسی پر ہوگی۔“ (حوالہ: حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمتہ اللہ علیہ، مفتی اعظم پاکستان، اسلام کا نظامِ تقسیمِ دولت، صفحہ ۲۷، مکتبہ دارالعلوم کراچی)

لہٰذا اب مقروض کے ملکیتی پیسوں سے کی گئی دیگر تمام ٹرانزیکشن کو قرضہ کے ساتھ جوڑنا اور فلیش لون مقروض کی نادہندگی کی صورت میں اْس قرضہ سے کی گئی دیگر تمام ٹرانزیکشن اور معاملات کو ہی کَالعَدَم Null and Void قرار دے دیا جانے سے دیگر ٹرانزیکشن و معاملات میں غرر بھی آرہا ہے، شرط کا بھی دخل ہے (چونکہ دیگر ٹرانزیکشن پہلی ٹرانزیکشن پر موقوف ہیں) اور معاملہ بھی مجہول ہورہا ہے۔

٭شریعت میں ”قرض کے لین دین کے معاملات(قرض کی رقم،قرض کی واپسی کا وقت وغیرہ) کو تحریر ی شکل میں محفوظ کرلینا قرض لینے اور دینے والے دونوں کے لیے بہتر اور مستحب ہے،تاکہ بعد میں مقروض اور قرض دینے والیکے درمیان کسی قسم کا اشتباہ اور اس کے نتیجہ میں نزاع نہ ہو“ (حوالہ: فتویٰ نمبر، 144311101079، جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن) چونکہ فلیش لون ڈی فائی اور کرپٹو کرنسی کے نظام پر انحصار کرتا ہے لہٰذا فلیش لون میں جو صارفین قرضہ لے رہے ہوتے ہیں، ان کی اصل شناخت ممکن نہیں ہوتی اور شریعت کے اس عمل کو چھوڑنے کی وجہ سے دیگر مفاسد کے علاوہ نزاع کا اندیشہ قائم رہتا ہے۔ (جاری ہے)