پنجاب کے بجٹ میں کسان کارڈ کیلیے 10 ارب روپے مختص

لاہور: پنجاب حکومت نے بجٹ 2024-25 میں کسان کارڈ کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں پہلی بارکسان کارڈ جاری کیا جا رہا ہے تاہم ماہرین کے مطابق یہ دعویٰ درست نہیں ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت میں بھی کسان کارڈ کا اجرا اور کاشتکاروں کی رجسٹریشن کی گئی تھی، تاہم اس کارڈ میں ورچوئل لوڈ نہیں تھا جبکہ موجودہ کسان کارڈ میں ڈیڑھ لاکھ روپے کی رقم رکھی گئی ہے۔

سیکریٹری زراعت پنجاب افتخار علی سہو نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ کسان کارڈ کاشتکاروں کے لیے ایک شناختی کارڈ کے طور پر استعمال ہوگا۔ آئندہ سے کاشتکاروں کو محکمہ زراعت کی تمام سہولیات کسان کارڈ کے ذریعے دستیاب ہوں گی۔ جس کاشتکار کے پاس کسان کارڈ نہیں ہوگا وہ محکمہ زراعت پنجاب کے تحت کسی بھی سبسڈی کے حصول کے لیے اہل نہیں ہوگا۔ کھالہ جات کی اصلاح، سبسڈی اسکیمیں اور دیگر تمام سہولیات کے حصول کے لیے کسان کارڈ کا ہونا لازم ہوگا۔

کسان کارڈ ایک سے ساڑھے بارہ ایکڑ رقبے کے مالک کاشتکاروں کو دیا جائے گا۔ پنجاب میں کم وبیش 60 لاکھ کاشتکار اس کیٹیگری میں آتے ہیں۔ محکمہ زراعت پنجاب کو 15 جون تک کسان کارڈ کے لیے 93 ہزار درخواستیں موصول ہوئیں ہیں جن کی ویری فکیشن کا عمل جاری ہے۔

محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان نے بتایا کہ درخواست دہندگان کی تین مقامات پر ویری فکیشن کی جائیگی، سب سے پہلے نادرا سے درخواست دہندہ کے شناختی کارڈ کی تصدیق ہوگی، اس کے بعد پنجاب لینڈ ریکارڈ اتھارٹی اس بات کی تصدیق کرے گی کہ کاشتکار نے اراضی کا جو ریکارڈ درخواست کے ساتھ دیا کیا وہ اسی کی ملکیت ہے اور آخر میں بینک تصدیق کرے گا کہ درخواست گزار کسی بینک کا نادہندہ تو نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ تصدیقی عمل کے دوران ممکنہ طور پر 30 سے 40 فیصد درخواستیں مسترد ہونے کا امکان ہے۔

حکام کے مطابق کسانوں کو قرض اور سبسڈی کے لیے مجموعی طور پر 75 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، 10 ارب روپے صرف کسان کارڈ پر بینک کو سود کی ادائیگی کے لیے ہیں۔ ایک کاشتکار کو ڈیڑھ لاکھ روپے قرض کی سہولت ہوگی، بینک سے حاصل کیے گئے قرض کی اصل رقم کاشتکار ادا کرے گا جبکہ سود پنجاب حکومت ادا کرے گی۔

کسان کارڈ کے ذریعے رجسٹرڈ کھاد، بیج ڈیلروں سے سبسڈی پر معیاری بیج اور کھادیں خرید سکیں گے۔ رجسٹرڈ ڈیلروں کو بینک کی طرف سے پوائنٹ آف سیل فراہم کیے جائیں گے۔ ابتک 750 سیڈ ڈیلرز جبکہ معیاری کھادوں کی خریداری کے لیے 800 فرٹیلائزر ڈیلرز کی رجسٹرڈ کیے جا چکے ہیں۔ 30 جون تک 10 ہزار فرٹیلائزر اور سیڈ ڈیلرز کی رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا جائے گا۔

سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ زراعت ایکسٹیشن اور زرعی ماہر ڈاکٹرانجم علی بٹر نے بتایا کہ پنجاب میں 2016 میں کاشتکاروں کو وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پروگراموں کے تحت ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ سبسڈی دی جا رہی تھی۔ ان میں مختلف فصلوں کے بیج اور کھادوں کے لیے سبسڈی دی جاتی تھی۔ کھاد پر سبسڈی ووچر کھاد کے بیگ میں ڈال دیا جاتا تھا۔ کاشتکار اس ووچر کے ذریعے کلیم کرتا اور تصدیق کے بعد رقم اس کے موبائل اکاونٹ میں منتقل کر دی جاتی تھی۔

انہوں نے بتایا کہ سال 2018-19 میں اس وقت کی حکومت نے کسان کارڈ کا اجرا کیا تھا جس کے تحت 8 لاکھ کاشتکار رجسٹرڈ ہوئے تھے لیکن اس کارڈ میں خامی یہ تھی کہ اس میں کوئی رچوئل لوڈنگ نہیں کی گئی تھی حالانکہ حکومت کو متعدد بار تجویز دی گئی تھی جبکہ موجودہ کارڈ میں ڈیڑھ لاکھ روپے کا بیلنس ہوگا۔

پراگریسو فارمر عامرحیات بھنڈارا نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ کسان کارڈ سے کھاد، بیج ڈیلرز اور آڑھتیوں کی بلیک میلنگ ختم ہوگی کیونکہ ڈیلر کاشتکاروں کی مجبوری کی وجہ سے ان کو مہنگے داموں کھاد اور بیج فروخت کرتے تھے جبکہ آڑھتی کاشتکاروں کا قرض دیکر سستے داموں فصل خریدتے تھے۔ کسان کارڈ کی وجہ سے کاشتکاروں کو اب کسی آڑھتی سے قرض نہیں لینا پڑے گا۔