Packed Milk Industry

ڈبہ دودھ پر ٹیکس؛ حکومت نے صارفین پر250 ارب کا بم گرا دیا

اسلام آباد: اتحادی حکومت نے اگلے مالی سال کے بجٹ میں ڈبہ دودھ استعمال کرنے والے صارفین پر250 ارب روپے کا بم گرا دیا ہے۔

موجودہ حکومت نے دودھ تیارکرنے والے سیکٹر کو ایسے وقت میں نشانہ بنایا ہے جب میں شیر خوار بچوں میں خوراک کی کمی شرح 40 فیصدتک بڑھ چکی ہے۔ حکومت پیک دودھ پر ٹیکس لگا کر ارکان پارلیمنٹ کی اسکیموں کی اخراجات پورے کرنے کیلیے 18 فیصد جنرل سیلزٹیکس لگانا چاہتی ہے۔

مزید پڑھیں:بجٹ منظوری کے بعد سولر پینلز کی قیمتوں میں مزید کمی متوقع

چیئرمین فیڈرل بورڈ آف ریونیو ملک امجد ٹوانہ کا کہنا ہے کہ اس 18 فیصد جی ایس ٹی کی مد میں حکومت کو 75 ارب روپے ملیں گے۔ یہ رقم بجٹ میں ارکان اسمبلی کی اسکیموں کیلیے مختص رقم کے برابر ہے۔

پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کے بقول اس ٹیکس کے بعد ڈبہ دودھ کی فی لیٹر قیمت 50 سے 70 روپے بڑھ جائے گی۔اسی طرح گوالوں کو کھلا دودھ بھی فی لیٹر 30 روپے تک مہنگا کرنے کا موقع مل جائے گا۔

پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کا تخمینہ ہے کہ روایتی سیکٹر کا پاکستان میں فروخت ہونے والے دودھ میں حصہ صرف 8 فیصد ہے۔ نئے ٹیکس لگنے کے بعد یکم جولائی سے برانڈڈ دودھ کی قیمت 340 روپے فی لٹر ہوجائیگی۔اس کے بعد برانڈڈ دودھ کے صارفین کھلا دودھ لینے پر مجبور ہونگے اور یوں کھلے دودھ کی قیمتیں جو ابھی تک برانڈڈ دودھ سے 100روپے لٹر کم ہیں وہ بھی بڑھ جائیں گی۔

وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا جمعرات کو کہنا تھا کہ پیکٹ والا دودھ چونکہ مڈل اور اپرمڈل کلاس کے لوگ استعما ل کرتے ہیں لہذا وہ 18فیصد جی ایس ٹی افورڈ کرسکتے ہیں۔

پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کے ایک روز بعد نیپرا نے بھی یکم جولائی سے بجلی کی قیمتوں میں بھی 5.72 روپے فی یونٹ اضافے کا اعلان کیا ہے،اس سے بجلی صارفین پر 570 ارب روپے کا بوجھ پڑے گا۔موجودہ شہبازحکومت نے جانوروں کے چارے اور پولٹری فیڈ پر بھی 18فیصد ٹیکس لگا دیا ہے۔ اس سے بھی دودھ ،گوشت اور چکن کی قیمتیں مزیدبڑھ جائیں گی۔

وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے ’’مقدس گائیوں‘‘ پر ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن بجٹ میں انہوں نے گائیوں اور بھینسوں پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈال دیا ہے۔دوسری طرف مقدس گائے سمجھے جانے والے برآمد کنندگان جن پر بجٹ میں ٹیکس لگایا گیا ہے وہ اپنے اوپر لگائے گئے ٹیکسوں کو واپس لینے کیلیے حکومت پر انتہائی دباؤ ڈال رہے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کو تھوڑ ے سے اضافے کے ساتھ ان سے فیکسڈ ٹیکس وصول کرلیا جائے۔

پاکستان ڈیری ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ اس سیکٹر پر18 فیصد جی ایس ٹی عائد کرنے سے یہ شعبہ تباہ ہوجائے گا جس کا اثر پبلک ہیلتھ اور کسانوں کی روزی روٹی پر پڑے گا۔دودھ انسانی صحت کیلیے انتہائی ضروری غذا ہے،اس کے مہنگا ہونے سے لوگوں کی صحت بھی تباہ ہوگی۔شومیٔ قسمت پاکستان میں پہلے ہی 40 فیصد آبادی غذائی قلت اور29 فیصد لوگ کم وزنی کا شکار ہیں۔ پاکستان میں کھلا دودھ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے ،حالیہ سائنسی تحقیق کے مطابق کھلے دودھ کی بہت بڑی مقدار ملاوٹ شدہ ہوتی ہے۔اس دودھ کی تقریباً تصف مقدار انسانی صحت کیلیے مضرہوتی ہے۔

ڈیری ایسوسی ایشن کے مطابق دنیا بھر میں 90 فیصد لوگ ڈبہ دودھ استعمال کرتے ہیں جبکہ پاکستان میں صورتحال اس کے برعکس ہے، یہاں 90 فیصد لوگ کھلا دودھ استعمال کر رہے ہیں۔ڈی ایسوسی ایشن کے بقول دودھ کی روایتی سپلائی چین سے کسانوں کی روزی روٹی پر فرق پڑا ہے،اس شعبے میں سرمایہ کاری سے ملکی معیشت بہتر ہوئی ہے،لوگوں کو روزگارملا ہے،عوام کوغذائیت سے بھرپور صحت افزا دودھ میسر آیا ہے،مزید یہ حکومت کو ٹیکسوں کی صورت میں آمدنی ملی ہے۔

بلاشبہ ملکی معیشت چلانے کیلیے ٹیکس ضروری ہیں لیکن ان میں انصاف کرنا چاہیے۔ خاص طور پر اس ماحول میں جبکہ کھلے دودھ پر کوئی ٹیکس نہیں۔ڈبہ دودھ پرٹیکس کا بہترین طریقہ انکم ٹیکس ہوسکتا ہے،جب اس پر جی ایس ٹی لگایا جاتا ہے کو کھلے دودھ کے مقابلے میں اس سیکٹر کو نقصان پہنچتا ہے۔

ڈیری ایسوسی ایشن کو خدشہ ہے کہ بجٹ میں لگائے گئے مجوزہ ٹیکسوں سے یہ سیکٹر 75 فیصد زوال کا شکار ہو جائیگا۔ ڈبہ دودھ کی طلب کم ہونے سے کسانوں سے دودھ نہ خریدا گیا تو ان کا بھی تقریباً23 ارب روپے کا نقصان ہوگا۔ڈبہ دودھ مہنگاہونے سے لوگ کھلا مضرصحت دودھ خریدنے پر مجبور ہونگے، ڈبہ دودھ کی کمپنیوں کے منافع میں کمی آئے گی،ان سے ملنے والا انکم ٹیکس بھی حکومت کو نہیں جائے گا۔

اگر حکومت سیلزٹیکس ختم کردیتی ہے تو یہ سیکٹر ہی نہیں پھلے پھولے گا بلکہ حکومت کو بھی زیادہ آمدنی انکم ٹیکس کی صورت میں حاصل ہوگی۔