Islamabad High Court

جسٹس بابرستارکا فیملی ڈیٹا لیک کرنےاورسوشل میڈیا مہم پرتوہین عدالت کیس کل سماعت کے لیے مقرر

اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نےاسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس بابر ستار کی فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے پر جاری توہین عدالت کیس کل سماعت کے لیے مقرر کر دیا ۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس بابر ستار کی فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے پر جاری توہین عدالت کیس میں اہم پیش رفت سامنے آئی ،اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار آفس نے توہین عدالت کیس 3 جون کو سماعت کے لیے مقرر کر دیا،جسٹس محسن اختر کیانی کی سربراہی میں اسلام آباد ہائیکورٹ کا تین رکنی بینچ سماعت کرے گا۔

گزشتہ سماعت جسٹس محسن اختر کیانی کی رخصت کے باعث نہ ہوسکی تھی،عدالت نے 14مئی کے حکمنامہ میں لکھا کہ بادی النظر میں آڈیو لیکس کیس سننے سے معذرت کی درخواست بھی انصاف کی راہ رکاوٹ میں آتی ہے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ نےآئندہ سماعت پر سائبر کرائم ونگ ،انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلیجنس بیورو (آئی بی)، ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی)،کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) ، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے) سے جاری مہم پر رپورٹس طلب کر رکھی ہیں۔

عدالت نے حکمنامہ میں لکھا کہ ہیش ٹیگ اور جس اکاؤنٹ سے مہم شروع ہوئی اس کی چھان بین کرکے بھی رپورٹ دیں،پانچ اکاؤنٹس جنہوں نے اس حوالے سے سب سے زیادہ ٹویٹس کیں ان کا بتائیں۔

عدالت نے ڈی جی امیگریشن اورفیڈرل انویسٹیگیشن ایجنسی( ایف آئی اے) سے پوچھا کہ بتائیں کیسے تھرڈ پارٹی کو جسٹس بابر ستار کی فیملی کی کانفیڈنشل معلومات تک رسائی ہوئی؟یہ بھی پوچھا کہ ایف بی آر بتائے کہ کیسے اثاثہ جات کی تفصیلات تک تھرڈ پارٹی کو رسائی ہوئی،آئندہ سماعت سے قبل تمام ادارے رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج بابر ستار نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت سے متعلق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ عامر فاروق کوخط میں لکھا کہ آڈیو لیکس کیس میں مجھے یہ پیغام دیا گیا پیچھے ہٹ جاؤ، مجھے پیغام دیا گیا سرویلئنس کے طریقہ کار کی سکروٹنی کرنے سے پیچھے ہٹ جاؤ تاہم میں نے اس طرح کے دھمکی آمیز حربے پر کوئی توجہ نہیں دی۔

جسٹس بابر ستار کا کہنا ہے کہ اس طرح کے پیغامات سے انصاف کے عمل کو کافی نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے ، بدنیتی پر مبنی مہم کا فوکس عدالتی کارروائی کو متاثر کرنے کا دھمکی آمیز حربہ معلوم ہوتا ہے۔

خط کے متن کے مطابق آڈیو لیکس کیس میں خفیہ اور تحقیقاتی اداروں کو عدالت نے نوٹس کئے، متعلقہ وزارتیں ، ریگولیٹری باڈیز ، آئی بی، ایف آئی اے کو نوٹس کئے ، عدالت نے ریگولیٹری باڈیز پی ٹی اے، پیمرا کو بھی نوٹس کئے تھے۔

اسلام آبادہائی کورٹ کا اعلامیہ:

جسٹس بابرستار کے خلاف بے بنیاد سوشل میڈیا مہم پر اسلام آباد ہائی کورٹ نےاعلامیہ جاری کیا تھا جس میں واضح کیا گیا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کےعلاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں، جسٹس بابرستار کے جج بننے کے بعد انکے بچوں نے پاکستان سکونت اختیار کی، جسٹس بابرستار کے گرین کارڈ کا اس وقت کے چیف جسٹس کو علم تھا۔

جسٹس بابر ستار کی والدہ 1992 سے اسکول چلا رہی ہیں، جسٹس بابر ستارکی لیگل فرم اسکول کی لیگل ایڈوائزر تھی اور فیس وصول کی، جسٹس بابرستار کو امریکا کا مستقل ریڈیڈنسی کارڈ ملا تھا، سنہ 2005 میں میں جسٹس بابرستار امریکا میں نوکری چھوڑ کر پاکستان آئے اور تب سے وہ یہاں کام کررہے ہیں۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے اعلامیے کے مطابق جسٹس بابر ستار کے پاس پاکستان کےعلاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں، جسٹس بابر ستار نے پاکستان اور امریکا میں جائیداد ٹیکس ریٹرن میں ظاہر کر رکھی ہے۔