Aqeeda Khatam e Nabuwat ( Photo By Internet )

تحریکِ ختمِ نبوت کی معروضی صورتحال اور ضروری تقاضے

مولانا زاہد الراشدی

30مئی 2024ء کو مدنی مسجد سمن آباد لاہور میں ”ختمِ نبوت تربیتی نشست“ سے خطاب کا خلاصہ نذر قارئین کیا جا رہا ہے۔

بعد الحمد والصلوٰۃ۔ آج مدنی مسجد سمن آباد میں حاضری پر مولانا قاضی عبد الودود نے بتایا کہ ان کے والد گرامی حضرت مولانا حافظ عبد الصبور رحمہ اللہ تعالیٰ کی وفات کو بارہ سال گزر چکے ہیں جس سے ماضی کی بہت سی یادیں ذہن میں تازہ ہو گئیں۔ مولانا حافظ عبد الصمد میرے بزرگ ساتھی اور بڑے بھائی تھے، جامعہ نصرۃ العلوم گوجرانوالہ کے فاضل تھے، مجھ سے چند سال قبل فراغت حاصل کی مگر تین چار سال ہمارے اکٹھے جامعہ میں گزرے اور کچھ اسباق میں رفاقت بھی رہی۔ وہ جامعہ کی مسجد نور کے سالہا سال امام رہے جبکہ ان کے بڑے بھائی اور ہمارے شفیق استاذ شیخ الحدیث حضرت مولانا قاضی محمد اسلم صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کئی برس جامعہ نصرۃ العلوم میں مدرس رہے اور میں نے ان سے کئی اسباق میں تلمذ کا شرف حاصل کیا۔ وہ حضرت علامہ سید محمد انور شاہ نور اللہ مرقدہ کے تلامذہ میں سے تھے اور اپنے دور میں درسِ نظامی بالخصوص معقولات میں معروف اور ممتاز مدرس کا تعارف رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں بھائیوں کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازیں اور ہم سب کو ان کی حسنات کا سلسلہ جاری رکھنے کی توفیق دیں، آمین یا رب العالمین۔

ہماری آج کی یہ نشست ”ختمِ نبوت تربیتی نشست“ کے عنوان سے ہے اور مجھے تحریک ختمِ نبوت کی معروضی صورت حال اور اس کے ضروری تقاضوں پر کچھ گزارشات پیش کرنی ہیں۔

معروضی صورت حال:پاکستان کے قیام کے بعد تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا تھا اور اس کے لیے مسلسل تحریک چلائی تھی کہ پاکستان میں قادیانیوں کو مسلمانوں میں شمار کرنے کی بجائے غیر مسلم اقلیتوں کے دائرے میں شمار کیا جائے۔ یہ مطالبہ 1974ء میں منظور کر لیا گیا تھا اور پارلیمنٹ کے متفقہ فیصلہ کے ذریعہ دستور میں قادیانیوں کا اندراج غیر مسلم اقلیتوں کی فہرست میں کر دیا گیا تھا۔ جس سے مطالبہ منظور ہو گیا تھا اور آج بھی دستور میں یہی درج ہے۔ تو پھر اب کیا مسئلہ باقی رہ گیا ہے؟ اور اس کے لیے مسلسل تحریک کا ماحول کیوں جاری رکھا جا رہا ہے؟ اس سلسلہ میں دو باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں:

(۱) ایک یہ کہ قادیانیوں کو مسلمانوں سے الگ غیر مسلم اقلیت کا درجہ دینے کا مطالبہ کیوں کیا گیا تھا؟ اس کی تین وجوہ ہمیں سامنے رکھنی چاہئیں: ۱) ختمِ نبوت پر امتِ مسلمہ کے اجماعی عقیدہ اور دیگر بنیادی عقائد سے انحراف اور نئی نبوت اور نئی وحی کے عنوان سے نئی مذہبی تشکیل کے باعث قادیانیوں کو پوری امت مسلمہ نے دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے۔ اور یہ صرف پاکستانی مسلمانوں کا نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمانوں کا متفقہ اور اجماعی فیصلہ ہے۔ اس لیے انہیں ان کے تمام تر دعاوی کے باوجود بطور مسلمان قبول کرنا امت مسلمہ کے لیے کسی صورت میں قابل قبول نہیں ہے۔ ۲) مسلمانوں کے ساتھ معاشرتی ماحول میں اکٹھے رہنے کی صورت میں ان کے مسلمانوں سے اس امتیاز کے اظہار کے لیے مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال نے یہ تجویز دی تھی کہ قادیانیوں کو اسلامی ریاست میں دیگر غیر مسلم اقلیتوں کے ساتھ غیر مسلم شہری کے طور پر قبول کیا جا سکتا ہے اور ان کی اسی تجویز کو قیام پاکستان کے بعد تمام مکاتب فکر کے علماء کرام نے پاکستان میں قادیانیوں کی معاشرتی حیثیت کے تعین کے لیے متفقہ مطالبہ اور موقف کے طور پر پیش کیا تھا جس پر مسلسل جدوجہد کے بعد 1974ء میں انہیں دستور میں غیر مسلم اقلیت کا درجہ دیا گیا ہے۔

۳) قادیانیوں کو دستوری طور پر غیر مسلم اقلیت ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے دور میں قرار دیا گیا تھا، وہ اس وقت وزیر اعظم تھے جبکہ مولانا مفتی محمود اور مولانا شاہ احمد نورانی دیگر رفقاء سمیت پارلیمنٹ میں تحریکِ ختمِ نبوت کی نمائندگی کر رہے تھے۔ بھٹو مرحوم نے ایک موقع پر اس کی ایک وجہ یہ بیان کی تھی کہ قادیانی گروہ پاکستان میں وہی پوزیشن حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو امریکا میں یہودیوں کو حاصل ہے کہ امریکا کا قومی سطح کا کوئی فیصلہ یہودیوں کی مرضی کے بغیر طے نہیں ہو پاتا اور یہ صورتحال ہم پاکستان میں قبول نہیں کر سکتے۔ بھٹو مرحوم کی یہ بات آج پوری طرح واضح ہو کر ہمارے سامنے ہے کہ امریکا ایک عالمی قوت ہونے اور ہر قسم کی طاقت و اختیار رکھنے کے باوجود یہودی اقلیت کے سامنے بے بس ہے۔ امریکا کی سیاست، معیشت، میڈیا اور لابنگ ہر چیز پر یہودیوں کا کنٹرول ہے جس کی وجہ سے فلسطین میں اسرائیل کی ننگی جارحیت اور وحشت و درندگی کو سامنے دیکھتے ہوئے بھی اور خود امریکی عوام کے شدید احتجاج کے باوجود امریکا اسرائیل کی سرپرستی کر رہا ہے اور اس کے لیے اس نے انصاف کے ہر اخلاقی، سیاسی اور قانونی پہلو کو پس پشت ڈال رکھا ہے جب کہ پاکستان کی داخلی صورت حال پر نظر رکھنے والے باشعور حضرات اس بات کی تصدیق کریں گے کہ اگر پاکستان کے عوام اور دینی حلقے اس سلسلہ میں مسلسل بیداری اور جدوجہد کا ماحول قائم نہ رکھتے تو قادیانی گروہ اپنے عالمی آقاؤں کی پشت پناہی کے ساتھ خدانخواستہ یہ حیثیت حاصل کر چکا ہوتا۔

(۲) دوسرا یہ ہے کہ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیتوں میں شمار کرنے کا مطالبہ جب 1974ء میں دستوری طور پر منظور ہو گیا تھا تو اس کے بعد تحریک کو جاری رکھنے کا جواز کیا ہے؟ اس کے جواب میں بھی تین باتیں ہی عرض کروں گا:۱) فیصلہ ہو گیا تھا مگر قادیانیوں نے اسے تسلیم کرنے سے نہ صرف انکار کر رکھا ہے بلکہ اس کے خلاف دنیا بھر میں لابنگ، پروپیگنڈا اور دیگر منفی ذرائع سے مسلسل مصروف ہیں، اور اسے ختم کرانے کے لیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب ایک فریق فیصلہ کرنے سے انکار کر دے اور اسے ختم کرانے کے لیے مہم جوئی جاری رکھے تو مسئلہ ختم نہیں ہوتا بلکہ زندہ اور موجود رہتا ہے اور اس کی ذمہ داری بھی فیصلہ کو تسلیم نہ کرنے والے فریق اور اس کے پشت پناہوں پر عائد ہوتی ہے۔

۲) فیصلہ کے خلاف صرف قادیانی سرگرمِ عمل نہیں بلکہ بہت سے عالمی ادارے، این جی اوز اور دیگر حلقے بھی مصروف کار ہیں اور اس دستور فیصلہ کو ختم کرانے یا بے اثر بنانے کے لیے ہر قسم کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔ اس لیے امت مسلمہ، پاکستانی قوم اور پارلیمنٹ کے فیصلے کے لیے عوامی بیداری کا قائم رہنا اور جہدِ مسلسل اس کا ناگزیر تقاضا ہے۔ ۳) اس فیصلہ پر عملدرآمد کی صورت حال تسلی بخش نہیں ہے۔ حکمران طبقات اور بیوروکریسی میں ایسے حضرات ہر سطح پر موجود و متحرک ہیں جو ذاتی دلچسپی یا عالمی اداروں کے ایجنڈے کے باعث اس فیصلہ کو غیر مؤثر بنانے کے لیے سرگرم عمل رہتے ہیں اور اس کی خلاف ورزی کرنے والوں کی سہولت کاری کرتے رہتے ہیں۔

اس کے بعد میں اس پہلو کی طرف آ رہا ہوں کہ اس صورت حال میں ہمیں کیا کرنا ہے اور ہماری ذمہ داری کیا بنتی ہے؟ اس سلسلہ میں چار باتیں عرض کرنا چاہوں گا: (۱) ہماری نئی نسل مجموعی طور پر پاکستان کی اسلامی نظریاتی حیثیت، شریعت کی عملداری، ناموسِ رسالت کے تحفظ اور قادیانیوں کے بارے میں قوم کے متفقہ فیصلہ کے بارے میں بے خبر ہے۔ اس لیے ہمارا پہلا کام نئی نسل کو ان مسائل کی اہمیت اور ان کے بارے میں دیگر تفصیلات سے باخبر کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

(۲) ان امور کے بارے میں قادیانیوں اور ان کے ہمنوا سیکولر حلقوں کی سرگرمیوں سے آگاہی حاصل کرنا اور اسی سطح پر ان کے سدباب کا ماحول قائم کرنا ہماری ذمہ داری ہے جو ہم نہیں کر رہے اور اس کی طرف ہماری کوئی توجہ نہیں ہے۔

(۳) ملک کے اندر ایسے سرکاری ملازمین، این جی اوز اور حلقوں پر نظر رکھنا جو سیکولر ایجنڈے کو فروغ دینے اور قادیانیوں کو غیر قانونی سرگرمیوں میں تحفظ فراہم کرنے میں شب و روز مصروف رہتے ہیں، ایسے لوگوں کی نشاندہی کرنا اور ان کی سرگرمیوں کو ناکام بنانے کی جدوجہد بھی ہماری ذمہ داری ہے۔

(۴) پاکستان کی اسلامی شناخت، نفاذِ شریعت اور تحفظِ ختمِ نبوت کی جدوجہد صرف مسجد کا کام نہیں ہے بلکہ وکلاء، تاجروں، اساتذہ، صنعت کاروں، طلبہ تنظیموں اور دیگر طبقات کی قیادتوں کو اس میں شریک کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ چند گزارشات میں نے موجودہ صورت حال کے تناظر میں عرض کر دی ہیں، اللہ تعالیٰ ہم سب کو نفاذِ شریعت، تحفظِ ختم نبوت اور پاکستان کو ایک صحیح ریاست بنانے کی جدوجہد میں اپنا اپنا کردار صحیح طور پر ادا کرنے اور کرتے رہنے کی توفیق سے نوازیں، آمین یا رب العالمین۔ اس تناظر میں سات ستمبر کو مینار پاکستان لاہور کے وسیع گراؤنڈ میں منعقد ہونے والی قومی ختم نبوت کانفرنس ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کی بھرپور کامیابی کے لیے ہم سب کو محنت کرنی چاہیے۔

٭……٭……٭