Court Order

بلوچ طلباء بازیابی کیس؛ نگراں وزیراعظم اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش

اسلام آباد: بلوچ طلباء کی بازیابی سے متعلق کیس میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اسلام آباد ہائیکورٹ میں پیش ہوئے۔

دوران سماعت، جسٹس محسن اختر کیانی نے نگراں وزیراعظم سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ نے ریکارڈ دیکھا ہے کہ آج 26ویں سماعت ہے، ہم صرف بلوچ طلباء کی حد تک کیس دیکھ رہے ہیں، بتایا گیا ہے کچھ ٹی ٹی پی کا حصہ بن چکے ہیں، انکے مطابق کچھ طلباء گھر آگئے ہیں اور کچھ کو ٹریس کر رہے ہیں، کیس چلا ہے تو کچھ لوگ گھر آگئے۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ادارے قانون سے بالاتر تر نہیں ہیں، آپ نے عدالت میں پیش ہوکر ثابت کیا کہ آپ بھی قانون کو جواب دہ ہیں، جبری گمشدگی بالکل ایک مختلف معاملہ ہے، ریاستی اداروں کو معلوم ہے ملک کیسے چلانا ہے، لیکن لوگوں نے حقوق کی خلاف ورزی کرکے ملک نہیں چلانا۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ہم آئین کے اندر رہ کر کام کر رہے ہیں، میں قانون کے مطابق جواب دہ ہوں، آپ نے ہمیں بلایا ہم آگئے ہیں، میں بلوچستان سے تعلق رکھتا ہوں اور ہم بلوچستان میں مسلح شورش کا سامنا کر رہے ہیں، نان اسٹیک ایکٹرز کی خلاف ورزیاں بھی ریکارڈ ہوتی ہیں۔

نگراں وزیراعظم نے بتایا کہ بلوچستان کے ایک سابقہ چیف جسٹس کو مغرب کی نماز کے وقت ان مسلح جتھوں نے شہید کیا تھا، ان چیف جسٹس صاحب نے ایک انکوائری کی سربراہی کی تھی، جبری گمشدگی کے معاملے پر پوری ریاست کو ملزم بنانا درست نہیں۔

عدالت میں نگراں وزیراعظم نے کہا کہ سڑک کنارے لوگوں کو مارا گیا مگر مجال ہے کسی کو انسانی حقوق یاد آئے، بسوں سے اتار کر مارا جاتا ہے، چوہدری نام ہے گولی مار دی جاتی ہے، گجر نام ہے گولی ماری جاتی ہے، دہشتگردی کے ہاتھوں 90 ہزار لوگ شہید ہوچکے ہیں، نان اسٹیک ایکٹرز بلوچستان میں ہماری زندگیوں کے پیچھے پڑے ہیں، مجھے کسی نے کہا کہ آپ بلوچستان کیسے جائیں گے۔ بلوچستان میں نسلی پروفائلنگ کرکے قتل کیا جاتا ہے، نان اسٹیک ایکٹرز لوگوں کو قتل کرتے ہیں اس پر کیوں نہیں بولتے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ بلاشبہ یہ جنگ ہے، ہماری فوج اور ادارے لڑ رہے ہیں، قانون ایک ہے سب کے حقوق ہیں۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ 20سال سے لڑائی چل رہی ہے، آئندہ پارلیمنٹ آئے گی وہ بھی دیکھے گی، آئے روز کے الزامات سے ریاست کو نکالنا چاہیے، ہم نے اس لیے ہتھیار نہیں اٹھایا کہ ریاست نے ہمارے حقوق کی گارنٹی دی ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ کسی نان اسٹیک ایکٹر کو کوئی عدالت بھی تحفظ نہیں دے رہی۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ آنے والی حکومت سے کہیں گے قانونی اور پراسیکیوشن کے مسائل حل کریں، یہ کہتے ہیں کہ اسٹوڈنٹس کی لسانی بنیادوں پر پروفائلنگ نا کریں، سسٹم میں کمی اور خامیاں ہیں، ثبوت نہیں آتا تو کس کو کیسے سزا دیں، پیرا ملٹری فورسز، کاؤنٹر ٹیرارزم کے اداروں پر الزامات لگائے جاتے ہیں۔

نگراں وزیراعظم نے کہا کہ میں صرف لاپتہ افراد کے حوالے سے وضاحت کر رہا ہوں، یہ لاپتہ افراد کا پوچھیں تو پانچ ہزار نام دے دیتے ہیں، یہ خود بھی اس ایشو کو حل نہیں کرنا چاہتے اور ان کی وجہ سے پوری ریاست کو مجرم تصور کرنا درست نہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے کامیاب اقدامات کا کریڈٹ حکومت کو جاتا ہے، یہ مطیع اللہ جان کھڑے ہیں، انہیں دن دیہاڑے اٹھایا گیا تھا، بلوچستان جانے کی ضرورت نہیں، اسلام آباد میں ہم بہت کچھ دیکھ رہے ہیں۔ نگراں وزیراعظم نے کہا کہ ایسا اقدام جس کسی نے اٹھایا ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔

وکیل ایمان مزاری نے عدالت کو بتایا کہ یہ تاثر درست نہیں کہ ہم ریاست کے خلاف کوئی پروپیگنڈا کر رہے ہیں، ہم بھی اسی ریاست کا حصہ ہیں اور ہم کبھی بھی دہشت گردی کو سپورٹ نہیں کرتے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ کے لیے یہ بات بہت تکلیف دہ ہوتی ہے کہ جب بات لاپتہ افراد کی ہو تو بات دہشت گردوں کی طرف چلی جائے۔