پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ: چیف جسٹس اور جسٹس منیب میں نوک جھونک، سماعت کل تک ملتوی

پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کے دوران وکیل سے سوال کرنے پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس منیب اختر کے درمیان نوک جھوک ہوئی۔

سپریم کورٹ آف پاکستان میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں پر سماعت چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ نے کی۔

جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللّٰہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی فل کورٹ میں شامل ہیں۔

چیف جسٹس نے ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی سے کہا کہ وہ بینچ کے سوالوں کا جواب دینے کے بجائے اپنے دلائل جاری رکھیں،وہ ہر سوال کا جواب دیں گے تو سماعت مکمل نہیں ہوسکے گی، اگر کسی نے اپنا ذہن پہلے ہی بنا لیا ہے تو وہ اپنے فیصلے میں لکھ دے گا۔

جس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں سوال پہلے سے ذہن بنانے کا نہیں ہے بینچ کا حصہ ہونے کے ناطے سوال کرنے کے حق کا ہے، افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ان کے ہر سوال میں مداخلت کی جاتی ہے۔

ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی کے دلائل

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا ہے کہ کیس میں فریق نہیں ہوں، عدالت کے نوٹس پر پیش ہوا، سوال ہوا کہ کیا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر سادہ اکثریت کی قانون سازی سے بدل سکتےہیں،عدالت کو دو فیصلوں پر دلائل دوں گا، ایک باز کاکڑ کیس کا حوالہ دوں گا، دوسرا سپریم کورٹ ریویو ایکٹ سے متعلق فیصلے کا حوالہ دوں گا، ان فیصلوں کے کچھ حصے موجودہ کیس سے تعلق رکھتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ آرٹیکل191 میں’لاء‘ کا لفظ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار دیتا ہے، آرٹیکل 191 میں لفظ’لاء‘ کا مطلب ہے وہ کسی قسم کا قانونی اختیار تو دے رہا ہے، سپریم کورٹ رولز میں الفاظ کی تعریف کا الگ سے سیکشن ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہوتا تو آئین سازوں نے بھی یہی لکھا ہوتا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میں ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ ہر سوال کا جواب نہ دیں، مسٹر صدیقی، آپ صرف اپنے دلائل پر توجہ دیں۔

وکیل کے ہنسنے پر چیف جسٹس کی تنبیہ
چیف جسٹس نے وکیل کے مسکرانے پر تنبیہ کی اور کہا کہ اس میں ہنسنے کی کوئی بات نہیں ہے، 4 سماعتوں سے کیس سن رہے ہیں اور کئی کیس التواء میں ہیں، فیصل صدیقی اپنے دلائل مکمل نہیں کریں گے تو ہم ہمیشہ یہی کیس سنتے رہیں گے، آپ پہلے اپنے دلائل مکمل کریں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں اس بینچ کا حصہ ہوں اور یہ میرا استحقاق ہے کہ میں سوال پوچھوں، مجھے سوال پوچھنے سے روکا جائے گا تو بینچ میں بیٹھنے کا کیا فائدہ؟

فیصل صدیقی میری ہدایات نظر انداز کر رہے ہیں: چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فیصل صدیقی آپ میری ہدایات مسلسل نظر انداز کر رہے ہیں، آپ دلائل مکمل کریں اس کے بعد تمام سوالات کے جوابات دیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جی سر میں دلائل مکمل کرتا ہوں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آئین کے باقی جن آرٹیکلز میں لفظ لاء استعمال ہوا اس کا بتائیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاء کا مطلب ایکٹ آف پارلیمنٹ تب ہوتا جب آرٹیکل 191 میں لکھا ہوتا کہ پارلیمنٹ سپریم کورٹ رولز بنا سکتا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سبجیکٹ ٹو اور لاء کو الگ الگ بھی پڑھ سکتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ آئین نے یہ کیوں کہا کہ عدلیہ، ایگزیکٹو اور مقننہ الگ الگ ہیں؟ ایکٹ سے سپریم کورٹ کی آزادی میں مداخلت کی گئی، یہ ایکٹ سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت ہے یا نہیں؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ایکٹ کو سپریم کورٹ کے اندرونی امور میں مداخلت کے طور پر نہیں دیکھ سکتے، پارلیمنٹ ایسی قانون سازی نہیں کر سکتی جو سپریم کورٹ کو اپنے رولز بنانے سے روکے، پارلیمنٹ پر 4 پابندیاں ہیں، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی میں مداخلت نہیں کر سکتی، پارلیمنٹ عدلیہ کی آزادی کو متاثر کرنے والی قانون سازی نہیں کر سکتی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایکٹ سے پارلیمنٹ پر عائد تمام آئینی پابندیوں کی خلاف ورزی ہوئی۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ہر پابندی کو ایکٹ کی شقوں سے ملا کر بتاؤں گا پارلیمنٹ نے کیسے خلاف ورزی نہیں کی، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کو سپروائز کر سکتی ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے استفسار کیا کہ سپروائز کرنے کا مطلب تو سپریم کورٹ کو کنٹرول کرنا ہو گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ پارلیمنٹ کے سپروائزری اختیار کی بھی حدود ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آرٹیکل191 کو لیجسلیٹیو انٹری 58 سے ملا کر پڑھیں تو پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا مکمل اختیار تھا۔

صلاح الدین نے اسی کا حوالہ دے کر کہا کہ پارلیمنٹ تو سپریم کورٹ رولز ختم بھی کر سکتی ہے۔

میری رائے صلاح الدین احمد سے مختلف ہے: وکیل
وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ میری رائے صلاح الدین احمد سے مختلف ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے پروسیجرز میں لفظ پریکٹس کا کیا مطلب ہے؟

فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس مندوخیل اور جسٹس حسن اظہر رضوی نے اپنے نوٹس میں سپریم کورٹ کی پریکٹس پر لکھا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میرا نوٹ تو میری رائے تھی۔

وکیل فیصل صدیقی نے جسٹس جمال مندوخیل سے کہا کہ آپ کے سوال سے یہ ساری بحث شروع ہوئی تھی، رجسٹرار آفس کے آرڈر کے خلاف اپیل بھی ہوتی ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہ ایڈمنسٹریٹیو آرڈر اور ایڈمنسٹریٹیو اپیل ہوتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ بھلے ایڈمنسٹریٹیو اپیل ہو لیکن ہمیں اس کی حقیقت کو سمجھنا چاہیے، کیا انٹرا کورٹ اپیل بنیادی حق ہے یا پریکٹس اینڈ پروسیجر کا حصہ ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس منیب اختر نے انٹرا کورٹ اپیل سے متعلق فیصلے میں اپیل کا حق درست قرار دیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا فیصلہ مختلف معاملے پر تھا، آپ کے دلائل سے یہ اخذ کیا جا سکتا ہے سپریم کورٹ خود اپیل کا حق دے سکتی ہے، کیا فل کورٹ بیٹھ کر اپیل کا حق دے سکتی ہے؟

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مسٹر فیصل! آپ مصالحت کرانے پر تعریف کے مستحق ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کورٹ خود اپیل کا حق دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے فیصل صدیقی سے کہا کہ آپ کا کہنا یہ ہے کورٹ اور پارلیمنٹ انٹرا کورٹ اپیل دے سکتے تھے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ رولز میں دوبارہ سے دیکھنے کا لفظ کیوں ہے؟ اپیل کا لفظ کیوں نہیں؟

اپیل فیصلہ دینے والے ججز نہیں سن سکتے؟ چیف جسٹس

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ کیا اپیل فیصلہ دینے والے ججز نہیں سن سکتے؟ دو رکنی بینچ تفریق پر ریفری جج کو فیصلے کے لیے بھیجے تو تیسرے جج کو بھی وکیل کو سننا ہو گا؟ کیا چیف جسٹس آرڈر کر سکتے ہیں کہ تینوں ججز بیٹھ کر دوبارہ سن کر فیصلہ کریں؟ چیف جسٹس کے پاس بینچ بنانے کا اختیار رہتا ہے یا نہیں؟ کیا ریویو انہی ججز کو سننا ہوتا ہے جو پہلے کیس سن چکے؟ کیا لارجر بینچ میں مرکزی کیس سننے والے ججز کو شامل کرنے سے آدھے جج ریویو اور آدھے پہلی بار کیس سن رہے ہوں گے؟

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ رولز میں کیس دوبارہ دیکھنے کے لیے reconsider کا لفظ ریویو کی جگہ استعمال ہوا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ انٹری 58 کے الفاظ اختیارات وضاحت کرتے ہیں، جسٹس عائشہ ملک نے سی سی پی فیصلے میں انٹری 55 اور آرٹیکل 175 ٹو پر انحصار کیا۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ یہاں سوال اپیل کے سپریم کورٹ میں آنے یا نہ آنے کا نہیں ہے، یہاں سوال اپیل کے ذریعے سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے کا ہے۔

جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ انٹری 55 کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر تو آئین کی کسی بھی شق کو کبھی بھی وسیع کیا جاسکتا ہے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس اعجاز نے سوال کیا اپیل بنانے سے سپریم کورٹ کے اختیارات میں اضافہ یا اسے وسیع کیا گیا؟

سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھایا جا سکتا ہے: جسٹس اطہر
جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ یہ بہت واضح ہے، سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار قانون کے مطابق بڑھایا جا سکتا ہے، جو واحد پابندی ہے وہ انٹری 55 میں دی گئی ہے، سپریم کورٹ کے اختیار کو بڑھایا جاسکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ واضح کر دیں کہ انٹریز آئین کو کہاں آرٹیکل 184/3 کا اختیار بڑھانے کا اختیار دیتی ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے آرٹیکل 175 ٹو کے ساتھ انٹری 55 کو ملا کر پڑھا جائے، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے سے واضح ہے پارلیمنٹ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے کی قانون سازی کر سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے سوال کیا کہ کیا یہ فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج ہوا ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ مسابقتی کمیشن ایکٹ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر یہ فیصلہ آیا تھا، یہ کیس سپریم کورٹ میں زیرِ التواء ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ مسابقتی کمیشن سے متعلق کیس صوبائی قانون سے متعلق ہے، وفاقی قانون سے نہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ ہے کہ آرٹیکل 175 ٹو کے ساتھ انٹری 55 کو ملا کر پڑھا جائے، فیصلے سے واضح ہے پارلیمنٹ سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے کی قانون سازی کرسکتی ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ کو آئین یا انٹریز میں سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار بڑھانے کی اجازت کہاں دی گئی ہے؟

جسٹس شاہد وحید نے سوال کیا کہ کیا قانون کے ذریعے آئینی اختیار کو بڑھایا جا سکتا ہے؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ قانون کے ذریعے آئینی اختیار کو تب نہیں بڑھایا جا سکتا ہے اگر آئین میں پابندی دی گئی ہوتی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ لاء ریفارمز آرڈیننس یکسر مختلف چیز ہے، آپ مالٹے کا موازنہ سیب سے کر رہے ہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آرٹیکل 199، 185، 184 تھری میں کوئی پابندی نہیں کہ اپیل نہیں کی جا سکتی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پارلیمنٹ میں اپیل کرنے کی براہِ راست اجازت بھی نہیں دی گئی۔

’’مسابقتی کمیشن کیس میں مدعا کیا ہے سمجھا دیں‘‘

چیف جسٹس پاکستان نے وکیل عزیر بھنڈاری سے استفسار کیا کہ مسابقتی کمیشن کیس میں مدعا کیا ہے سمجھا دیں؟

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ مسابقتی کمیشن سے متعلق انٹری 55 کا معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان میں 5 مسابقتی کمیشن ہیں جن کے فیصلے کے خلاف اپیل ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں ہو گی۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ کے اختیارات پر قانون سازی کا براہِ راست اختیار ہے یا نہیں، دوسرا سوال یہ ہے کیا سپریم کورٹ کا اختیار بڑھایا جاسکتا بھی ہے یا نہیں؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئین میں پارلیمنٹ کو سپریم کورٹ سے متعلق براہِ راست قانون سازی کا اختیار درج نہیں۔

وقفے کے بعد سماعت کا آغاز
وقفے کے بعد ایم کیو ایم کے وکیل فیصل صدیقی نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اب اس نکتے پر دلائل دینا چاہتا ہوں کہ ایکٹ آف پارلیمنٹ سے رولز بنائے جا سکتے ہیں یا نہیں۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ اٹارنی جنرل سے ایکٹ پر قانون سازی کا پارلیمنٹری ریکارڈ منگوایا گیا تھا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ ریکارڈ کے معاملے پر جواب اٹارنی جنرل ہی دے سکتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اپیل کا حق دینا ہے تو وہ آئین کے تحت دیا جا سکتا ہے، اپیل کا حق ذیلی آئینی قانون سازی سے نہیں دیا جا سکتا، طریقے کار کی بات کر رہا ہوں کیونکہ دو غلط مل کر درست نہیں ہو سکتے۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کہ کیا آئین میں اپیل کا حق دینے پر کوئی پابندی ہے یا نہیں۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جب عدلیہ پارلیمنٹ کے اختیار میں مداخلت کرتی ہے تب اختیارات کی تقسیم کا اصول کہاں جاتا ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ باز محمد کاکڑ کیس کا فیصلہ آرٹیکل 204 سے متعلق تھا، مجھے آرٹیکل 191 سے متعلق جو اصول اپنایا گیا اس کا بتائیں، ایکٹ کا سیکشن تھری تو کولونائز کر رہا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ جب تک کوئی قانون بنیادی حقوق کو متاثر نہ کرے تب تک وہ چل سکتا ہے، اگر کوئی قانون خلاف آئین ہو گا تو واچ ڈاگ موجود ہیں، پارلیمنٹ کیسے سپریم کورٹ رولز کو ختم نہیں کر سکتی؟ پارلیمنٹ سپریم کورٹ رولز کو مکمل ختم کر سکتی ہے، اگر وہ آئین و قانون کے خلاف ہوں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آئین کے بہت محدود آرٹیکلز ہیں جن میں سبجیکٹ ٹو لاء کا لفظ استعمال ہوا، جب بھی آرٹیکل 184 تین استعمال ہوا اس سے پورے ملک کی بنیادیں ہلا دی گئیں، آئین 1973ء میں بنا اور سپریم کورٹ رولز 1980 میں بنے، کیا سپریم کورٹ رولز میں وقت کے ساتھ رد و بدل نہیں ہونا چاہیے تھا؟

جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ آئینی مینڈیٹ یہ نہیں کہ سپریم کورٹ اپنے پریکٹس اینڈ پروسیجر خود بنائے گی؟ سپریم کورٹ کا ایک سسٹم بنا ہے جس میں وہ خودکوخود ریگولیٹ کرتا ہے، فل کورٹ اجلاس بلا کر ان تمام معاملات پر کیوں بحث نہیں ہو سکتی۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ کوئی بھی سپریم کورٹ کو رولز بنانے سے نہیں روک رہا۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ جرمنی اور جنوبی افریقا میں لاء فل جج کا طریقہ کار اپنایا گیا، وہاں طریقے کار بنایا گیا ہے کہ کون سا کیس کس جج کے سامنے مقرر ہونا ہے، جرمنی اور جنوبی افریقا میں ماسٹر آف روسٹر کا کوئی تصور نہیں ہے، کیا کل کو ہماری پارلیمنٹ ایسے قانون بنا سکتی ہے؟

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا اس ایکٹ کی موجودگی میں سپریم کورٹ خود اپنے رولز بنا سکتی ہے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا ممکن ہے کل کو فل کورٹ اجلاس میں فیصلہ ہو جائے کہ ججز کمیٹی 3 کے بجائے 5 جج ہوں گے؟

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ رولز کی پابندی بینچ پر ہوتی ہے یا پوری سپریم کورٹ پر؟ کیا ایڈمنسٹریٹیو رولز سپریم کورٹ کے جوڈیشل اختیار کے استعمال کی پابندی کرا سکتے ہیں؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ عدالت خود اپنے رولز کالعدم قرار دے تو پھر ان کی پابندی نہیں ہو گی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ اگر کوئی بینچ فیصلہ دے سکتا ہے کہ سپریم کورٹ میں فلاں فلاں کیس مقرر نہیں ہو سکتے تو کیا نہیں ہوں گے؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ بینچ ایسا حکم دے سکتا ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کیا کہ کیا سپریم کورٹ کا کوئی بھی بینچ سپریم کورٹ کے رولز بنا سکتا ہے؟ کیا اس کی اجازت ہے یا نہیں؟ ایک کیس میں سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا فل کورٹ رولز بنا سکتا ہے، بینچ کے حکم کے باوجود چیف جسٹس فل کورٹ نہیں بلاتا تو کیا ہو گا؟ میں مفروضوں پر بات نہیں کر رہا جو اس عدالت میں ہو چکا اس کی بات کر رہا ہوں، کیا آخر میں بس یہ کہہ دیا جائے گا تمام اختیارات فرد واحد چیف جسٹس کے پاس ہیں؟ بہت سے معاملات سپریم کورٹ میں اٹھتے رہے لیکن فل کورٹ اجلاس نہیں بلایا گیا، ہم اس قانون کو اڑا دیتے ہیں، رولز بنانے کے لیے میں فل کورٹ نہیں بلاتا تو کیا ہو گا؟

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ آپ سب کمال ججز ہیں اور آپ سب کو ایک ساتھ بیٹھے دیکھنا اعزاز کی بات ہے۔

تعریف سے جواب نہیں مل سکتا: چیف جسٹس
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ آئینی امور کے ماہر وکیل ہیں، سوال کا جواب دیجیے، میری یا کسی کی تعریف سے جواب نہیں مل سکتا، آپ فل کورٹ کو آئینی سوالات پر جواب دیجیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ یہاں پر ماسٹر آف روسٹر کا سوال نہیں ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ پہلے میرے سوال کا جواب دیجیے، مجھے اپنے سوال پر اضافی سوالات پسند نہیں۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ جسٹس منیب اختر سے اجازت چاہ کر جواب دینا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ میرے جواب کے لیے اجازت لینا تو دہرا معیار ہے، میں نے آج سب سے کم سوال کیے ہیں، میرے سوال کا جواب دینے کا حق ہی ماسٹر آف روسٹر کو دے دیجیے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پارلیمنٹ ماسٹر آف روسٹر ہے؟ پہلے صاحب کے سوال کا جواب دے دیں پھر میرا بھی دیجیے گا۔

وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ فیصلوں کے لیے چیف جسٹس کے ساتھ 2 ججز کا اضافہ کرنے سے عدلیہ کی آزادی کیسے متاثر ہو سکتی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ سادی باتوں کو سادہ الفاظ میں بیان کر دیں، آئین کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آئینی تشریح کیجئے، جو چیزیں ہم ابھی دیکھ رہے ہیں یہ پہلے نہیں دی گئیں، میں یہ تو نہیں کہہ رہا کہ آپ میرے اختیارات میں کمی لا رہے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ججز کی کمیٹی بنا کر پارلیمنٹ کی مرضی پوری ہو رہی ہے، پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے معاملات میں ماسٹر آف روسٹر بنی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کل کو فل کورٹ اجلاس نہیں بلاتے تو کوئی کچھ نہیں کر سکتا، سب کو خوش رکھتے رکھتے بہت مسائل بن جاتے ہیں، صاف جواب دیجیے۔

اٹارنی جنرل نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ایک گھنٹے میں اپنے دلائل مکمل کروں گا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوالات کی بمباری میں ایک گھنٹے میں دلائل مکمل نہیں ہو سکیں گے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ کل آپ کے دلائل سن لیں گے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ کل ایک گھنٹے میں دلائل اور دوسرے میں سوالات کے جوابات دے دوں گا۔

جسٹس عائشہ ملک نے اٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ یعنی آپ ہمیں اب ریگولیٹ کر رہے ہیں۔

سماعت کل 11:30 بجے تک ملتوی
سپریم کورٹ نے کہا کہ پاکستان بار کونسل نے ایکٹ کی حمایت میں دیے گئے دلائل کو اپنا لیا، کیس کی سماعت کل 11:30 بجے تک ملتوی کی جاتی ہے۔

وکیل عزیر بھنڈاری نے کہا کہ ہم سب کی معاونت ہمارے ایسوسی ایٹس نے کی، ان کی حاضری بھی لکھی جائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ صرف اس شرط پر کہ آپ اپنے جونیئر وکلاء کو اچھی تنخواہ دیں گے.