Tunis Feature Story

انتخابات میں صرف 8فیصد ٹرن آؤٹ

تیونسی عوام نے ڈکٹیٹرقیس سعید کو کراراجواب دے دیا

٭…… ووٹرز کی تعداد91لاکھ، 8لاکھ افراد نے ووٹ کاسٹ کیا،انتخابات محض دھوکا،پارلیمنٹ بے اختیار ہوگی،اپوزیشن
٭…… صدر قیس سعید نے برسراقتدارآتے ہی آمرانہ سرگرمیوں کاآغازکیا، پارلیمنٹ کو معطل، وزیر اعظم کو برطرف کر دیا تھا
٭…… انتخابات ایسے وقت ہوئے جب تیونس سیاسی کے ساتھ معاشی بحران کا بھی شکار،عوام مہنگائی سے سخت پریشان، میڈ یا

منصور عادل

عرب اسپرنگ تحریک کے ہوم ٹاؤن تیونس میں اتوارکوہونے والے انتخابات میں عوام نے ڈکٹیٹر صدر قیس سعید کو کرارے دارجواب دے دیا ہے، تیونسی عوام نے انتخابات کوڈھونگ قراردیتے ہوئے اس کا بائیکاٹ کردیا۔ شمالی افریقہ کے عرب اسلامی ملک تیونس میں 17دسمبرکوعام انتخابات منعقد ہوئے،تیونسی انتخابات میں ایک ہزار 58 امیدواروں کے درمیان پارلیمنٹ کی161 نشستوں کے لیے مقابلہ ہوا، ان انتخابات کی منفرد بات یہ تھی کہ یہ 2011ء میں سابق آمر زین العابدین کے خلاف اٹھنے والی عوامی احتجاجی تحریک کے بعد بننے والے نئے آئین کے تحت منعقد کیے گئے۔

رواں برس جولائی میں ہونے والے ریفرنڈم میں تیونس کے باشندوں نے ایک آئین کی منظوری دی تھی، جو صدر کو وسیع ایگزیکٹیو اختیارات سونپتا ہے،یہ آئین ملک کے نئے صدرقیس سعید کابنایاہواہے، صدر قیس سعید نے پارلیمنٹ معطل اورحکومت تحلیل کردی تھی، جس پر تیونس میں غیرمعمولی سیاسی بحران ہے، اس وقت تیونس کی تمام سیاسی پارٹیاں احتجاج کررہی ہیں اوران کا ماننا ہے کہ صدر ڈکٹیٹربن کر زین العابدین کی طرح تاحیات برسراقتداررہنے کی کوشش کررہے ہیں۔

تیونس کے حالیہ انتخابات کی منفرد بات جو عالمی میڈیا کاموضوع ہے،و ہ عوامی ٹرن آؤٹ ہے، تیونسی الیکشن کمیشن کی جاری کردہ معلومات کے مطابق تیونسی انتخابات میں ووٹرز کی تعداد91لاکھ 36ہزار تھی، جن میں سے صرف 8لاکھ 3ہزار افراد نے ووٹ ڈالا،جو مذکورہ اعدادوشمار کاصرف 8.8فیصد ہے، تیونس کے سیاسی امورپرنظررکھنے والے تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ تیونس ایک بار پھر 2011ء کی عوامی تحریک کے خطرے سے دوچار ہے،عوام نے انتخابات میں حصہ لینے سے انکار کرتے ہوئے مستقبل کا سیاسی منظرنامہ بتادیاہے،جس کے بعد فیصلہ صدرقیس سعید کے ہاتھ میں ہے کہ استعفاد ے کر سائیڈلائن ہوجاتے ہیں یاپھر عوامی احتجاجی تحریک کاسامنا کرنے کے لیے تیارہوجاتے ہیں۔

خیال رہے کہ تیونس میں صدارتی مارشل لاء سے قبل پارلیمنٹ کی سب سے بڑی اسلام پسندجماعت حزب النہضۃ تھی، جو 2011ء کے بعد دو مرتبہ برسراقتداربھی آئی ہے، اپوزیشن جماعتوں میں سالویشن فرنٹ اورالنہضہ پارٹی نے حالیہ انتخابات کا بائیکاٹ کیاہے۔ بائیکاٹ کرنے والی جماعتوں کا ماننا تھا کہ انتخابات تو بس ایک دھوکا ہیں اور پارلیمنٹ اب ایک ایسا ادارہ ہو گا، جس کے پاس اختیارات نہیں ہوں گے،النہضۃ اور سالویشن کے ساتھ 12تیونسی سیاسی جماعتوں نے انتخابات کامکمل بائیکاٹ کررکھاتھا، بائیکاٹ کرنے والی پارٹیوں نے کہا ہے کہ ہم ایسے شخص کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دے سکتے، جس نے ریاستی اداروں کو تباہ کر دیاہے، اگر یہ بائیکاٹ ایک جمہوری نظام میں ہوتا، تو شاید غلط ہوتا، لیکن ہمیں تو بغاوت کا سامنا ہے۔

صدر قیس سعید اکتوبر2019ء میں سیکولر نداء پارٹی کے سربراہ اورتیونس کے سابق صدر السبسی قائد الباجی کی وفات کے بعد صدربنے تھے۔قیس سعید قانون کے سابق پروفیسر ہیں، انتخابات میں ان کی غیرمعمولی مقبولیت تھی،یہاں تک کہ النہضہ پارٹی کے ورکرز نے اپنے امیدوار کے مقابلے میں انہیں ووٹ دیا تھا،تاہم قیس سعید نے برسراقتدارآکر زین العابدین جیسی آمرانہ سرگرمیوں کاآغازکردیا۔ انہوں نے جولائی 2021ء میں منتخب پارلیمنٹ کو معطل کرنے کے ساتھ ہی وزیر اعظم ہشام مشیشی کو برطرف کر دیا تھا،رواں برس فروری میں قیس سعید نے ملک کی سپریم جوڈیشل کونسل کو معطل کر دیا اور ایک ماہ بعد ہی پارلیمنٹ کو مکمل طور پر تحلیل کر دیا، جولائی میں ریفرنڈم کے ذریعے ایک ایسے نئے آئین کو منظور کروا لیا، جس سے صدارتی اختیارات مزید وسیع ہو گئے،پھر اسی برس ستمبر میں ملک کے انتخابی قانون میں تبدیلیاں کی گئیں، جس کا اطلاق ان انتخابات پر ہو گا، اب 217 کے بجائے 161 انتخابی حلقے ہیں اور پہلی بار عوام پارٹی کی فہرستوں کے بجائے انفرادی امیدواروں کو ووٹ دیں گے،صدر نے انتخابی مہم کے لیے عوامی فنڈنگ پر بھی پابندی عاید کر دی ہے اور ہر امیدوار کو کم سے کم 400 افراد کی تائید فراہم کرنا پڑی۔

صنفی برابری،جسے 2016ء میں عرب انقلاب کے اہم مطالبات میں سے ایک کے طور پر 2011ء میں متعارف کرایا گیا تھا، اسے بھی ختم کر دیا گیا ہے،قیس سعید نے انتخابات میں حصہ لینے والے انفرادی امیدواروں سے متعلق رپورٹنگ کرنے پر بھی بین الاقوامی صحافیوں پر پابندی لگا دی،انتخابات ایسے وقت میں منعقد ہوئے جب تیونس میں سیاسی بحران کے ساتھ معاشی بدحالی کادوردورہ ہے،تیونس کی معاشی صورتحال خاصی خراب ہو چکی ہے۔

ملک کے قومی ادارہ شماریات کے مطابق اس وقت افراط زر کی شرح 10 فیصد کے قریب ہے، جو ریکارڈ طور پر بلند ترین شرح ہے۔ کوویڈ کی وبا اور یوکرین پر روسی حملے کی وجہ سے بھی گندم اور درآمد کی جانے والی دیگر اشیاء کی قیمتوں میں زبردست اضافہ ہوا ہے،تمام کوششوں کے باوجود قیس سعید کی انتظامیہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف سے امداد حاصل کرنے کا کوئی معاہدہ نہیں کر سکی، اب اس کی دوبارہ کوشش ہو رہی ہے تاہم اطلاعات کے مطابق جو فنڈز موجودہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے درکار ہیں، وہ تیونس کو مشکل سے ہی مل پائیں گے،ایک چیز جس کا لوگ انتظار کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ کیا یہ انتخابات واقعی کچھ ٹھوس اقتصادی منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کا موقع فراہم کریں گے۔ بدقسمتی سے اب تک ایسی کوئی چیز ریکارڈ پر نہیں ہے، جس سے یہ پتا چلتا ہو کہ قیس سعید ایسا کرنے کے لیے کوئی موقع تلاش کر رہے ہوں۔

تجزیہ کاروں کا کہناہے کہ تشویش اس بات پر ہے کہ انتخابات کے بعد صدر،دیگر عناصر بشمول سول سوسائٹی، آزادی اظہار اور سیاسی جماعتوں پر مزید دباؤ ڈالنے کے ساتھ آگے بڑھیں گے،حزب النہضہ نے عوام کی انتخابات میں عدم دلچسپی کاخیرمقدم کرتے ہوئے شکریہ اداکیاہے۔