غزہ/تل ابیب/ٹورنٹو/واشنگٹن:مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آبادکاروں نے ایک مسجد کو آگ لگا دی جبکہ اسرائیلی فورسز نے مختلف علاقوں میں چھاپوں کے دوران 25 فلسطینیوں کو گرفتار کر لیا۔
فلسطینی خبر رساں ادارے وفا نیوز ایجنسی کے مطابق واقعہ مغربی کنارے کے شہر سلفیت کے قریب پیش آیاجہاں اسرائیلی آبادکاروں نے مسجد کے دروازے پر آتش گیر مواد چھڑک کر آگ لگانے کی کوشش کی۔
رپورٹ کے مطابق آبادکاروں نے مسجد کی دیواروں پر نسل پرستانہ نعرے بھی لکھے تاہم مقامی شہریوں نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے آگ پر قابو پالیا۔دوسری جانب اسرائیلی فوج نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں تازہ کارروائیوں کے دوران 25 فلسطینی شہریوں کو گرفتار کیا۔
رپورٹ کے مطابق طولکرم کے قریب دیر الغصون کے علاقے میں تین نوجوانوں کو گھروں پر چھاپے مار کر حراست میں لیا گیا۔اسی طرح الخلیل کے قریب دورا کے علاقے میں 18 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ جنوبی الخلیل میں بزرگوں سمیت کئی شہریوں سے فیلڈ انویسٹی گیشن بھی کی گئی۔
مزید برآں نابلس کے جنوب میں بیتا اور قریوت کے علاقوں سے چار افراد کو بھی گرفتار کیا گیا۔ کارروائیوں میں فلسطینی شہریوں کے گھروں، دکانوں، زرعی اراضی اور تجارتی مراکز کوبھی منہدم کیا جا رہا ہے۔فلسطینی حکام کے مطابق اسرائیلی فورسز کی جانب سے چھاپے اور گرفتاریاں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر جاری ہیں جنہیں عالمی برادری نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قراردیا ہے۔
ادھرمقبوضہ بیت المقدس گورنری نے بتایاکہ جمعرات کے روز سینکڑوں صہیونی آبادکاروں نے قابض اسرائیل کی پولیس کی سخت سیکورٹی میں مسجد اقصیٰ پر دھاوا بول دیا اور مقدس مقام کے صحنوں میں کھلے عام تلمودی رسومات ادا کیں۔
القدس گورنری کے مطابق مجموعی طور پر 793 آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں اشتعال انگیز گشت کیا اور تلمودی عبادات او ر رسومات انجام دیں۔گورنری کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ درجنوں آبادکاروں نے مسجد اقصیٰ کے مشرقی حصے میں خاص طور پر مصلیٰ و باب الرحمت کے قریب تلمودی عبادات ادا کیں اور مقدس مقام کی حرمت کو پامال کیا۔
دوسری جانب اسرائیلی صدر آئزک ہرزوگ کے دفتر نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے جس میں ٹرمپ نے ہرزوگ سے وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کو معافی دینے پر غور کرنے کی اپیل کی۔
جاری بیان میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ نے اپنے خط میں لکھا میں اسرائیلی عدالتی نظام کی خود مختاری اور تقاضوں کا مکمل احترام کرتا ہوں لیکن میرا یقین ہے کہ نیتن یاہو جو طویل عرصے تک میرے ساتھ، خاص طور پر اسرائیل کے دیرینہ دشمن ایران کے خلاف جدوجہد کرتے رہے ان کے خلاف یہ مقدمہ سیاسی نوعیت کا اور بے بنیاد مقدمہ ہے۔
البتہ صدر ہرزوگ نے یہ درخواست شائستگی سے یہ کہتے ہوئے مسترد کر دی کہ جو بھی معافی حاصل کرنا چاہتا ہے، اسے قواعد کے مطابق باقاعدہ درخواست دینا ہو گی۔
دریں اثناء جی سیون وزرائے خارجہ اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ جاری کر دیا گیا۔جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں بتایا گیا کہ جی7وزرائے خارجہ نے ٹرمپ کے غزہ منصوبے کیلئے مضبوط حمایت کا اعادہ کیا، جی 7 وزرائے خارجہ نے اسرائیلی یرغمالیوں کی باقیات فوری واپسی پرزور دیا۔
مشترکہ اعلامیہ کے مطابق جی 7 وزرائے خارجہ نے غزہ میں امداد پہنچانے میں رکاوٹوں پرتشویش کااظہار کیا، جی 7 نے تمام فریقین سے بغیر رکاوٹ بڑے پیمانے پرغزہ میں انسانی امداد کی اجازت دینے کامطالبہ کیا، جی7وزرائے خارجہ نے یوکرین کی سالمیت اور حق کے دفاع کی حمایت کااعادہ کیا۔
اعلامیہ میں واضح کیا گیا کہ یوکرین روس کے درمیان فوری سیز فائر اہم ضرورت ہے، جی 7 وزرائے خارجہ نے یوکرین کے توانائی ڈھانچے پر روس کے حملوں کی مذمت کی ۔
قابض اسرائیل کی سپریم کورٹ نے ایک حتمی فیصلہ صادر کیا ہے جس کے تحت راس جرابہ کے 500 فلسطینی باشندے جو نقب میں رہائش پذیر ہیں، جبری طور پر بے گھر کیے جائیں گے۔ یہ اقدام قابض اسرائیل کی اس طویل المدتی حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد فلسطینی معاشروں کو ان کی زمینوں سے نکال کر قبضہ کرنا ہے۔
عدالت نے راس جرابہ کے باشندوں کی وہ اپیل مسترد کر دی ہے جو انہوں نے بے گھر کیے جانے کے فیصلے کے خلاف بئر السبع کی مرکزی عدالت میں دائر کی تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ فیصلہ 90 دن کے اندر نافذ العمل ہو جائے گا۔
ادھرامریکی خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ اسرائیلی حکام جنگ کے دوران غزہ میں اپنے فوجیوں کی حفاظت کے لیے فلسطینیوں کوڈھال کے طور استعمال کرنے کے لیے بارودی سرنگوں میں بھیجنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے۔
غیرملکی خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکی حکام نے بتایا کہ گزشتہ سال امریکا کو ایسی خفیہ معلومات ملی تھیں، جن میں اسرائیلی حکام اس بارے میں گفتگو کر رہے تھے کہ ان کے فوجیوں نے فلسطینیوں کو غزہ کی ان سرنگوں میں بھیجا جن کے بارے میں اسرائیلیوں کا خیال تھا کہ ان میں ممکنہ طور پر بارودی مواد موجود ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ امریکی حکام کو ملنے والی یہ خفیہ معلومات وائٹ ہاس کو بھیج دی گئی تھیں اور سابق صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ کے آخری ہفتوں کے دوران امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے مذکورہ معلومات کا تجزیہ کیا۔
بین الاقوامی قانون فوجی کارروائی کے دوران شہریوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی ممانعت کرتا ہے۔غزہ میں جنگ بندی کے باوجود اسرائیلی فوج کی بربریت اور وحشیانہ کارروائیاں جاری ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق اسرائیلی جنگی طیاروں نے شمال مشرقی غزہ میں بیت لاہیہ پر تین فضائی حملے کیے، بوریج پناہ گزین کیمپ کے مشرق میں اسرائیلی فوجیوں نے فائرنگ کی۔
وزارت صحت کے مطابق غزہ پر وحشیانہ اسرائیلی حملوں میں مزید3 فلسطینی شہید ہوئے۔11 اکتوبر کو جنگ بندی کے نفاذ کے بعد سے اب تک شہداء کی تعداد بڑھ کر 260 تک جا پہنچی ہے، جب کہ 632 شہری زخمی ہو چکے ہیں۔
یہ اعداد و شمار جمعرات کو غزہ کی وزارت صحت کی جانب سے جاری کردہ بیان میں سامنے آئے۔وزارت صحت نے اپنے بیان میں بتایا کہ ملبے کے ڈھیروں سے اب تک مزید 533 شہداء کی لاشیں نکالی جا چکی ہیں جو قابض اسرائیلی بمباری کے دوران تباہ شدہ عمارتوں کے نیچے دفن تھیں۔
بیان کے مطابق7 اکتوبر 2023ء سے جاری قابض اسرائیل کے بدترین حملوں کے نتیجے میں مجموعی طور پر 69 ہزار 187 فلسطینی شہید اور ایک لاکھ 70 ہزار 703 زخمی ہو چکے ہیں۔
فلسطینی مزاحمتی تنظیموں القسام بریگیڈز اور القدس نے اعلان کیا ہے کہ وہ قابض اسرائیلی فوج کے ایک قیدی فوجی کی لاش حوالے کرنے جا رہے ہیں جسے جنوبی غزہ کے علاقے خان یونس کے شمال میں واقع موراگ کے مقام سے برآمد کیا گیاتاہم بیان میں اس قابض فوجی کی شناخت یا اس کی لاش کے ملنے کی تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
دوسری جانب اسرائیل نے 10 اکتوبر کو حماس کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ نافذ ہونے کے بعد سے غزہ میں 1,500 سے زائد عمارات تباہ کر دی ہیں، یہ بات برطانوی نشریاتی ادارے کی ایک تحقیقات میں سامنے آئی ہے جس میں حالیہ سیٹلائٹ تصویروں کا تجزیہ کیا گیا ۔
جاری کردہ تجزیے میں نام نہاد ییلو لائن کے عقب میں اسرائیل کے زیرِ قبضہ علاقوں پر توجہ مرکوز کی گئی جو جنگ بندی کے حوالے سے قائم کردہ سرحد ہے۔بصری شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ ہفتوں کے اندر پورے کے پورے محلے مسمار کر دیے گئے بشمول وہ گھر جو مسماری شروع ہونے سے پہلے صحیح سالم نظر آتے تھے۔
خان یونس اور رفح کی تصاویر میں پتا چلا کہ پھلدار باغات اور رہائشی عمارات مٹ گئے۔اس نے جنگ بندی سے پہلے اور بعد میں لی گئی ریڈار تصاویر کا تجزیہ کرنے کے لیے تبدیلی کا پتہ لگانے والے الگورتھم کا استعمال کیا تاکہ وہ تبدیلیاں نمایاں ہوں جو تباہی کی نشاندہی کر سکتی ہیں، پھر تباہ شدہ عمارات کو دستی طور پر شمار کیا۔
یہ بھی مشاہدہ کیا گیاکہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے کیونکہ بعض علاقوں کی سیٹلائٹ تصاویر دستیاب نہیں تھیں۔

