اسرائیلی پارلیمنٹ میں فلسطینی قیدیوں کیلئے سزائے موت کا بل منظور

غزہ/تل ابیب/نیویارک: اسرائیلی پارلیمنٹ نے دو متنازع بلوں کی منظوری دے دی ہے جس سے فلسطینی قیدیوں کے لیے سزائے موت اور غیر ملکی میڈیا پر مستقل پابندی کی راہ ہموار ہو گئی۔

ترک میڈیا کے مطابق اسرائیل کی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے دو انتہائی متنازع بلوں کی ابتدائی منظوری دے دی ہے، ایک بل فلسطینی قیدیوں کے لیے سزائے موت کی اجازت دیتا ہے جب کہ دوسرا حکومت کو عدالتی منظوری کے بغیر غیر ملکی میڈیا اداروں کو مستقل طور پر بند کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

یہ دونوں بل وزیر اعظم نیتن یاہو کے دائیں بازو کے اتحادیوں کی جانب سے پیش کیے گئے ہیں اور ابتدائی منظوری کے بعد اب انھیں حتمی منظوری سے قبل پارلیمانی کمیٹی میں مزید بحث کے لیے بھیجا گیا ہے۔

پہلا بل وزیرِ قومی سلامتی ایتمار بن گویر کی پارٹی جیوش پاور نے پیش کیاجس کے مطابق اْن فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دی جا سکے گی جو اسرائیلی شہریوں کے قتل میں ملوث ہوں، اگر ان کے اقدامات ”نفرت یا اسرائیل کو نقصان پہنچانے کے ارادے” سے کیے گئے ہوں۔

یہ بل 120 ارکان میں سے 39 کے مقابلے میں 16 ووٹوں سے ابتدائی طور پر منظور ہوا۔بدنام زمانہ وزیر بن گویر نے اس نتیجے کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمایکس پر ”تاریخی لمحہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کی جماعت نے ”وعدہ کیا تھا اور پورا کیا”۔

دوسری جانب انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس تجویز کی سخت مذمت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ قانون خاص طور پر فلسطینیوں کو نشانہ بناتا ہے اور مقبوضہ علاقوں میں اسرائیل کے نسلی امتیاز اور جبر کے نظام کو مزید گہرا کرتا ہے۔

پارلیمانی اجلاس کے دوران عرب رکنِ پارلیمنٹ ایمن عودہ اور بن گویر کے درمیان شدید تلخ کلامی بھی ہوئی جو تقریباً ہاتھاپائی میں بدلنے والی تھی جس سے کنیسٹ کے اندر بڑھتے ہوئے تناؤ کی عکاسی ہوتی ہے۔ اگر یہ قانون منظور ہو گیا تو یہ 1962ء کے بعد پہلا موقع ہوگا جب اسرائیل سزائے موت کا نفاذ کرے گا، اس سے قبل صرف نازی جنگی مجرم ایڈولف آئخمن کو پھانسی دی گئی تھی۔

اسی روز کنیسٹ نے ایک دوسرے بل کو بھی آگے بڑھایا جس کے تحت حکومت کو الجزیرہ قانون کو مستقل بنانے کا اختیار دیا جائے گا۔ یہ قانون اس وقت حکومت کو یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ ان غیر ملکی میڈیا اداروں کو عارضی طور پر بند کر سکے جنھیں ”اسرائیل کی سلامتی کے لیے نقصان دہ” سمجھا جائے۔

نیا مجوزہ بل جو لیخود پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ اریئل کالنر نے پیش کیا، عدالتی نگرانی کو مکمل طور پر ختم کر دے گا اور حکومت کو امن کے دور میں بھی میڈیا ادارے بند کرنے کا اختیار دے گا۔ یہ بل ابتدائی ووٹنگ میں 50 کے مقابلے میں 41 ووٹوں سے منظور ہوا۔

وزیرِ مواصلات شلومو کرہی نے بل کی جلد منظوری پر زور دیتے ہوئے کہا کہ عارضی قانون کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ تاہم قانونی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ اقدام اظہارِ رائے کی آزادی اور آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کے مترادف ہوگا۔

فلسطینی مرکز برائے دفاع اسیران نے کہا ہے کہ قابض اسرائیل کی کنیسٹ کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کے لیے سزائے موت کے قانون کی پہلی منظوری، اس بات کی کھلی علامت ہے کہ قابض ریاست اپنی ریاستی دہشت گردی، خونریزی اور درندگی کو قانون کا نام دے کر جائز قرار دینے کی راہ پر گامزن ہے۔

مرکز نے منگل کے روز جاری بیان میں واضح کیا کہ یہ قانون دراصل قابض اسرائیل کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کے خلاف شروع کی گئی اْس وسیع جنگ کا تسلسل ہے جس کا مقصد ان کے حوصلے کو توڑنا، ان کی مزاحمتی قوت کو ختم کرنا اور ان کے اندر موجود صبر کی روح کو قتل کرنا ہے۔

ادھرغزہ جنگ بندی معاہدے کے باوجود اسرائیل کے حملے تھم نہ سکے، اسرائیلی فوج نے جنگ بندی کے دوران 31 میں سے 25 دن حملے جاری رکھے۔عرب میڈیا کے مطابق جنگ بندی کے بعد صہیونی حملوں میں 242 فلسطینی شہید، 622 زخمی ہوئے، 19 اور 29 اکتوبر کو اسرائیلی حملوں میں 154 افراد شہید ہوئے۔

اسرائیل نے 10 اکتوبر سے 10 نومبر تک 282 خلاف ورزیاں کیں، اسرائیل نے ایک ماہ میں غزہ پر 124 بار بمباری اور 52 بار مکانات تباہ کیے۔ دوسری جانب غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی فضائی حملوں اور کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے، بچوں سمیت تین فلسطینی شہید ہوگئے ۔مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی اسرائیلی فوج کی کارروائیاں جاری ہیں۔

معاہدے کے تحت روزانہ 600 امدادی ٹرک داخل ہونے تھے، تاہم اب صرف 200 ٹرک غزہ میں داخل کیے جا رہے ہیں۔اسی دوران اسرائیل نے 15 فلسطینی قیدیوں کو رہا کردیاہے۔

دوسری جانب قابض اسرائیلی فوج نے منگل کی صبح مقبوضہ مغربی کنارے کے مختلف علاقوں میں وسیع پیمانے پر چھاپہ مار کارروائیاں کیں جن کے دوران گھروں میں زبردستی داخل ہو کر تلاشی لی گئی، گھروں کی تلاشی کے دوران سامان تہس نہس کر دیا گیا۔

اسی دوران طوباس میں ایک فلسطینی اسیر کے اہل خانہ کو ان کے گھر کی مسماری کا نوٹس دیا گیا۔ قابض افواج نے مسلسل چوتھے روز جنین کے قریب فوجی یلغار اور مکمل ناکہ بندی جاری رکھی۔ قابض فوج نے طوباس، عقابہ اور طمون میں درجنوں فوجی گاڑیوں کے ہمراہ دھاوا بولا۔

ان علاقوں میں گھروں کی چھان بین اور املاک کی توڑ پھوڑ کی گئی تاہم گرفتاریوں کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔قابض اسرائیلی فوج نے عقابہ میں فلسطینی اسیر ایمن ناجح غنام کے خاندان کو ان کے گھر کی مسماری کا باضابطہ حکم نامہ تھما دیا۔

دریں اثناء اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی اعلیٰ کمشنری نے فوری طور پر غزہ کی تمام گزرگاہیں کھولنے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ انسانی امداد بلا روک ٹوک پہنچ سکے کیونکہ فلسطینی عوام دو سالہ جنگ کے بعد انتہائی خطرناک حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔

کمشنری کے ترجمان سیف ماجانجو نے نامہ نگاروں سے گفتگو میں کہا کہ قابض اسرائیل انسانی امداد کے مناسب تعداد میں ٹرک غزہ میں داخل نہ کرنے کا مکمل ذمہ دار ہے اور گزرگاہیں بند رکھنے کا عمل انسانی بحران کو مزید بڑھا رہا ہے جس سے بین الاقوامی امدادی کوششوں کو نقصان پہنچا رہا ہے۔

ادھرفلسطینی وزارتِ صحت نے اعلان کیا ہے کہ وزارت کے ریکارڈ میں 6ہزار ایسے افراد درج ہیں جن کے اعضا قابض اسرائیلی جارحیت کے نتیجے میں کٹ چکے ہیں اور جو فوری و طویل المدتی بحالی کے خصوصی پروگراموں کے شدت سے منتظر ہیں۔

وزارتِ صحت نے منگل کے روز اپنے بیان میں بتایا کہ مجموعی طور پر ان متاثرین میں 25 فیصد بچے اور 12.7 فیصد خواتین شامل ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس المناک انسانی المیے کی سنگینی کو ظاہر کرتے ہیں جو قابض اسرائیل کی جاری درندگی کے باعث غزہ کے شہریوں پر مسلط ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ طبی سہولیات، علاج کے وسائل اور معاون آلات کی شدید کمی ان متاثرہ افراد کی تکالیف میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔علاوہ ازیںقابض اسرائیل کے آبادکاروں نے مغربی کنارے کے مختلف علاقوں پر حملے کیے، شمالی اردن کی وادی میں خربہ حمصہ التحتا میں کچھ چرواہوں کا پیچھا کیا اور انہیں دھمکیاں دیں۔

مشرقی القدس کے مخماس میں یہودی آباد کاروں نے دو گاڑیوں کو آگ لگا دی۔حقوقی کارکن عارف دراغمہ نے بتایا کہ آبادکاروں نے چرواہوں کو گھیر کر انہیں اردگرد کی چراگاہ چھوڑنے پر مجبور کرنے کی کوشش کی۔

ادھرقابض اسرائیلی فوج نے جزیرہ نما النقب کے شہر اللقیہ کے داخلی راستے پر واقع بازار منہدم کر دیا جس سے مقامی تاجروں اور شہریوں میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔یہ مجرمانہ کارروائی ایک وسیع پیمانے کی کارروائی کے تحت کی گئی ہے جو گذشتہ چند ہفتوں میں النقب کے مختلف فلسطینی شہروں میں جاری ہے۔

حکام پر الزام ہے کہ وہ منظم طریقے سے فلسطینیوں کی معاشی زندگی کو محدود کر رہے ہیں اور انہیں مستحکم کاروباری مواقع فراہم کرنے کے بجائے رکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔

حماس نے قابض صہیونی آبادکاروں کی جانب سے مقبوضہ القدس میں تاریخی باب الرحمت قبرستان پر کیے گئے حملے کواسلامی اور مسیحی شناخت کو مٹانے اور اس کے تاریخی حقائق کو مسخ کرنے کی منظم کوشش قرار دیا ہے ۔

منگل کے روز جاری اپنے بیان میں حماس نے کہا کہ صہیونی آبادکاروں کے جھنڈ نے مسجد اقصیٰ کے پہلو میں واقع اس قدیم قبرستان میں قبروں اور ان کے کتبوں کو توڑ پھوڑ کر حرمتِ اموات اور مقامِ مقدس کی بے حرمتی کی یہ حرکت قابض اسرائیل کے اْن روزمرہ منظم جرائم کی ایک کڑی ہے جو وہ القدس اور اس کے مقدسات اسلامی و مسیحی کے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے۔